گزشتہ سال بیلہ میں آنے والے ہولناک زلزلے کے بعد بلوچی گوٹھ بیلہ کے گرلز اسکول کی عمارت مخدوش ہوگئی تھی، مخدوش عمارت کے ناقابل استعمال ہونے کی وجہ سے علاقے کی بچیوں نے اسکول آنا بند کر دیا تھا مگر بعد ازاں اسکول کے بچوں اور ٹیچرز کے احتجاج کے بعد علاقائی عمائدین نے اسکول کو قریب ہی پولیس تھانے کی زیر تعمیر عمارت میں منتقل کر دیا تھا لیکن اب تھانے کی عمارت کی تکمیل کے بعد ٹھیکیدار نے اسکول کے کمروں پر تالے لگادیئے ہیں جس سے ایک بار پھر بلوچی گوٹھ بیلہ کی یہ بچیاں مشکلات سے دوچار ہیں ۔
میڈیا نمائندوں نے جب عمارت کے ٹھیکدار منوج کمار سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ میں نےعمارت کے کمروں میں تالے لگائے ہیں مگر ایسا بوجہ مجبوری کیا گیا، مجھےاس عمارت کی تکمیل کا کام دیا گیا تھا جو میں نے پورا کردیا ہے مگرعمارت محکمہ پولیس کے حوالے کرنے کی راہ میں یہ بچے رکاوٹ ہیں جن کی وجہ سے میں یہ عمارت محکمہ پولیس کے حوالے نہیں کر پارہا، جس سے مجھے کئی جگہ جواب دینے پڑتے ہیں، میری اس حوالے سے متعدد بار انتطامیہ سے بات ہوئی مگر اس کی کہیں کوئی سبیل نہیں نکل رہی۔
منوج کمار کا مزید کہنا تھا کہ بچوں کی سہولت کے 3 کمرے اور 1 واش روم فی الحال کھول رکھا ہے۔
دوسری طرف ای ڈی او لسبیلہ واحد شاکر سے جب رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے میں نے نوٹس لے رکھا ہے اور رپورٹ طلب کر رکھی ہے مگر میں اس پر مزید کوئی بات نہیں کرنا چاہتا، ضلع میں تعلیم کے سربراہ کے اس طرح ٹیلی فون کاٹنے سے بہت سارے سوال تھے جو تشنہ ہی رہ گئ ۔
دوسری طرف گرلز اسکول بلوچی گوٹھ کی متحرک ٹیچر مہناز زاہد سے جب میڈیا کے نمائندوں نے رابطہ کیا توان کا کہنا تھا کہ رواں سال بیلہ میں آنے والے ہولناک زلزلے کے بعد جہاں پورے بیلہ میں تباہ کاریاں ہوئیں وہیں بلوچی گوٹھ کے گرلز اسکول کی عمارت بھی انتہائی مخدوش ہوگئی تھی اورناقابلِ استعمال رہی، اسکول کی خستگی اور بچوں کے خوف کی وجہ سے ہم نے کچھ دن تو اسکول کے قریب ہی واقع کھیت میں بچوں کو پڑھایا مگر کسی نے توجہ نہیں دی، بعدازاں سوشل میڈیا کے زریعے جب ہم نے اپنی آواز بلند کی تو علاقائی عمائدین اور اسٹنٹ کمشنر بیلہ کی ذاتی کوششوں سے ہمیں پولیس تھانے کی زیرِ تعمیر عمارت استعمال کرنے کی اجازت ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ 10 مہینے کے تمام ترعرصے میں ہم نے بہت زیادہ مشکلات کا بڑی خندہ پیشانی سے سامنا کیا مگر پچھلے 15 دنوں سے ان مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے، مقامی ٹھیکدار نے عمارت میں جہاں ہمارا آفس قائم تھا اس کمرے سمیت تمام کمروں کو تالا لگا دیا جس کی وجہ سے ہمارا سارا اسکول ریکارڈ متاثر ہوا، متعدد بار رابطہ کرنے کے باوجود ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ لسبیلہ کی طرف سے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے، جبکہ واش رومز میں تالے پڑجانے کی وجہ سے بڑی بچیوں سمیت فی میل اسٹاف سخت ذہنی اذیت میں مبتلاہے۔
اسی معاملے پراسٹنٹ کمشنر بیلہ نے بھی اپناموقف دیتے ہوئے بتایا کہ جتنے بھی اسٹیک ہولڈر ہیں وہ کہیں نہ کہیں اپنی جگہ پر درست ہیں، ٹھیکدار کی اپنی مجبوریاں ہیں جبکہ پولیس کا جو موقف ہے اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا اور اسکول کے بچوں اور ٹیچرز کی پریشانیاں بھی اپنی جگہ درست ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کل ان تمام اسٹیک ہولڈرز کی ایک میٹنگ کال کی جائے گی جس میں ایک بار پھر اس معاملے کے (عارضی) حل کی طرف جایا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جنوری میں آنے والے زلزلے میں صرف بلوچی گوٹھ ہی نہیں 3 اور اسکول بھی متاثر ہوئے تھے جن کی دوبارہ تعمیر کی رقم ریلیز ہوچکی ہے اور امید ہے کہ اس پر جلد کام کا آغاز ہوجائے گا۔
مزید پڑھیں: بلوچستان میں 1300 اسکولوں کی بندش تعلیمی ایمرجنسی کے دعوؤں کی نفی ہے – بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی
بلوچی گوٹھ بیلہ کے اسکول کی آواز سوشل میڈیا میں اٹھانے والے لسبیلہ کے متحرک سماجی کارکن خلیل رونجھو نے بتایا کہ بلوچی گوٹھ بیلہ کے اسکول میں 200 سے زائد طالبات پڑھ رہی ہیں جو گذشتہ ایک سال سے پریشانی کا شکار ہیں۔ زلزلے کے بعد 15 دن تک بچیاں کھلے آسمان تلے کھیت میں پڑھتی رہیں، پھر اسسٹنٹ کمشنر بیلہ سے مذاکرات کےبعد طالبات کو تھانے کی زیر تعمیرعمارت فراہم کی گئی۔ اس دوران بچیوں کے ڈراپ آؤٹ میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ بیلہ کے دیگر اسکولز کی عمارتیں بھی شدید خستہ حال ہیں، جن کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔
خلیل رونجھو نے مزید بتایا کہ لسبیلہ میں تعلیمی ایمرجنسی کے دعوے تو بہت کئے جاتے ہیں مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں جبکہ محکمہ تعلیم لسبیلہ کا بھی اس تمام تر معاملے میں کردار کسی طور بھی قابل ستائش نہیں۔
واضع رہے کہ بلوچستان میں موجودہ حکومت کی جانب سےصوبے میں تعلیمی ایمرجنسی لگائی گئی ہے جب کہ موجودہ وزیرِاعلیٰ بلوچستان جام کمال کے اپنے ہی آبائی شہر میں تعلیم کی ابترصورتحال حکومتِ بلوچستان کے تعلیمی ایمرجنسی کی تمام تر دعوؤں کا پول کھولنے کے لیے کافی ہے۔
دریں اثنا محکمہ تعلیم بلوچستان کی جانب سے بلائے گئے اجلاس میں اس بات کی بھی تصدیق ہوئی ہے کہ بلوچستان میں استادوں کی کمی اور غیر حاضری کی وجہ سے 1300 اسکول بند ہے۔