میں مررہی ہوں
تحریر: بانک حوران بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
میں مر رہی ہوں یہ اذیتیں مار رہی ہیں، زندہ رہتے ہوئے روز مرنا موت کے لمحوں سے زیادہ اذیت ناک ہوتی ہے، جو میں محسوس کرتی ہوں. مجھے ان لوگوں پہ حیرت ہوتی ہے جو ظالم کے ساتھی ہیں انکے تو ضمیر مر چکے ہیں.
آج درد کی شدت زیادہ ہے کہ ہمارے دھرتی کے شہدا جو اپنے زندگی اس گل زمین پہ قربان کر چکے ہیں، جنہوں نے اپنا لہو لُمہ وطن بلوچستان کے لیے بہایا ہے، ان کے آخری آرام گاہوں پہ ان کے نام اور ان کے قبروں کے کتبوں سے ریاست اور اس کے آلہ کار کار اتنے ڈرے ہوئے ہیں کے ان کو ہی توڑ دیا ہے. قومی بیرک کو تمام شہدا کے قبروں سے اتار دیا گیا ہے، یہاں تک شہدائے بلوچستان کے نام کے بورڈز بھی اٹھا کے لے گئے. لیکن یہ ظالم ریاست کی بھول ہے، انکو یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ ان سے بلوچ شہداء کا فکر و نظریہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ ہاں! البتہ ان نیچ حرکتوں سے انکی بوکھلاہٹ اور خوف کا خوب اندازہ لگایا جاسکتا ہے.
آخر کب تک ہم زندہ ہیں؟ کیا ہم بس مرنے کے انتظار میں زندہ ہیں؟ یہ جو ہمیں موت سے ڈراتے ہیں، ہم واضح کرتے ہیں کہ ہم زندہ ہیں تو اس فکر کے وجہ سے ورنہ یہ زندگی جینے کے لیئے نہیں، جو اذیت تم ہمیں نہیں دے سکتے، اذیت ہم اپنوں کے لاشیں گرتے محسوس کرتے ہیں، وہ ازیت ہم اپنوں کے گھر گدان کو جلتے جیٹ طیاروں کے بمباری سے اپنے ماوں بہنوں کے سسکیوں اپنے بچوں کے بلکتے آوازوں کو سن کے محسوس کرتے ہیں. اپنے بھائیوں، بہنوں کے لاپتہ ہونے کے بعد محسوس کرتے ہیں، وہ درد اپنوں کے مسخ شدہ لاشیں کسی ویرانے میں پھینکے دیکھ کر، ہم محسوس کرتے ہیں۔ ظاہراً تم نے زندہ رکھا ہے، مارا نہیں ہے پھر روز کئی طرح کے موت دیتے ہو، تم مار رے ہو، ہم تمہارے اذیتوں سے جسمانی تکلیف سہیں گے یا مریں گے مگر فکراً زندہ رہیں گے.
ریاست تو ہر طرح کے ہتھکنڈے آزماتا آرہا ہے، ریاست کے زر خرید آلہ کار بھی اپنا زور لگا رہے ہیں، دھمکیاں، حملے، ذہنی اذیتیں، جسمانی اذیتیں ہر وہ حربہ جس سے تکلیفیں ملیں، جس سے ہمیں ہرایا جا سکے یا جھکایا جا سکے، چاہے وہ نہام نہاد خونی رشتوں کو رشتے داروں کو خرید کر تکلیفیں دینا مسائل پیدا کرنا ہو، پھر اس سے ہماری سوچیں بدلی نہیں جا سکتیں، ہم اور زیادہ مضبوط ہوں گے کیونکہ ہمارے پاس کھونے کو کچھ نہیں فقط چند سانسیں ہیں، اور پانے کیلئے بہت کچھ ہے.
بلوچ مائیں خون کے آنسو روتے ہیں، اپنوں کیلئے دو وقت کی روٹی کے لیئے یہاں وہاں دربدر دیکھ کے کلیجہ پھٹنے لگتا ہے، ہاں موت تو نہیں آتی پھر وہ درد کی شدت محسوس ہوتی ہے، جو مرتے وقت شاید کسی کو ہو، میں خود کو مرتی دیکھ رہی ہوں شاید بے موت مروں گی، شاید یہ زندگی اپنا وجود پہ ہی تکلیف دیتی ہے، بوجھ سا ہے، گھٹن سی ہوگئی ہے، ہر لمحہ جب محسوس ہوتی ہے.
میں خود کو مری ہوئی محسوس کر رہی ہوں اپنے اندر اور آس پاس اذیتیں اتنے شدید محسوس ہیں کہ بیان نہیں کر پا رہی ہوں، پھر میں ان پہ حیران ہوں جو کہتے ہے اس راستے میں موت ہے اپنے گل زمین کی آزادی مانگنے کی بات کرنے میں جدوجہد کرنے میں، وہ شاید اس موت سے واقف نہیں ہوں گے، زندہ رہنا کیسی زندگی ہے، جب دشمن بلوچ قوم کی نسل کشی تسلسل سے کرتی آرہی ہے، ریاست کے آلہ کار پانچ سو کے لیئے بلوچوں کی مخبری کرکے انہیں شہید کرواتے ہیں. کیسے سانس لیتے ہوں گے، جب ننگ و ناموس کی باتیں کرتے یہ بھول جاتے ہیں، کتنے بلوچ خواتین ازیت خانوں میں ذہنی یا جسمانی اذیتیں سہہ رہے ہیں، کیسے بھول جاتے ہیں، وہ بے کفن لاشیں جو اجتماعی قبروں کے شکلوں میں بلوچستان کے ہر کونے میں موجود ہیں. کیا تم لوگ جیتے جی مرچکے ہو؟
یہ اذیتیں وجود کے ختم ہونے تک رہیں گی، اور ہر وجود کو ایک نا ایک دن فنا ہونا ہے. پھر ایسے وجود کا کیا فائدہ جو فنا ہونے سے پہلے ختم ہو چکا ہے.
ہمیں اپنے ان شہیدوں کو بھولنا نہیں چاہیئے جو مادر وطن کی دفاع کرتے ہوئے، جام شہادت نوش کر چکے ہیں وہ فرزندان وطن جنہوں نے سالوں سال ریاست کے عقوبت خانوں میں ہر طرح کی اذیتیں سہی لی ہیں اور شدت کی انتہا میں جان دیا ہے. وہ فرزندان وطن جنہوں نے فدائی حملے کیئے ہیں.
وہ فرزندان وطن وہ مائیں، بہنیں جو آج بھی ٹارچر سیلوں میں انسانیت سوز اذیتیں سہہ رہے ہیں اور وہ جو اپنوں کے انتظار میں روز سسکیاں لیتے ہیں، ہمیں انہیں بھولنا نہیں ہے یہ جو ہم درد اذیت محسوس کرتے ہیں یہ تب تک کرتے رہیں گے جب تک بلوچ سرزمین پہ قابض کا قبضہ ہے. ہم کب تک اپنوں کی لاشیں اٹھاتیں رہیں گے؟ اور اپنے قوم کو اسی بھوک و افلاس میں درد کی شدت میں دیکھتے رہیں گے. اگر ان اذیتوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنا ہے تو ہمیں اٹھنا ہوگا اپنے سرزمین کے آزادی کے لیئے جدوجہد کرنا ہوگا تب تک جب تک بلوچ قوم کا ایک آزاد اور خودمختار ریاست نہیں ہوتا۔