حوصلوں کا نام ریحان – علیزہ بلوچ

705

حوصلوں کا نام ریحان

تحریر: علیزہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

کیا بیان کروں میں اس ریحان کو، جس نے جرات و بہادری اور قربانی کی نئی مثال قائم کردی۔ مقابلہ کرنے کے لیئے عقلمندی کے علاوہ بہادری بھی ضروری ہے. اور بہادری میں اکثر اوقات جنون اور جذبے کا بھی بہت دخل ہوتا ہے، جو عقل اور سمجھ و بوجھ کے معیارات سے ماورا ہوتے ہیں. جرات اور بہادری کی مثال قائم کرتے ہوئے ریحان نے جس طرح مادر وطن سے اپنی محبت، اپنے عشق کا اظہار کیا وہ تاریخ رہتی دنیا تک یاد رکھےگی.

میں اتنی بڑی ادیب تو نہیں ہوں کہ ریحان جیسے عظیم ہستی کے بارے میں لکھنے کی جرات کروں اور نہ ہی ایسے عظیم لوگ میرے چند لفظوں کے محتاج ہیں اور یہ بھی ایک سچ ہے کہ یہ چند الفاظ میرے جذبات اور احساسات کو بیان نہیں کر پائیں گے، مگر ایک سچ یہ بھی ہے کہ دل کسی کی نہیں سنتا۔ بس یہی حال میرے دل کا بھی ہے کہ میں اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ لے کر اپنے جذبات کا ذکر کرنے کے لیئے میں نے اپنے دوست، اپنے بھائی، اپنے سرمچار، اپنے راہشون، اپنے ریحان کے یاد میں قلم اٹھا لیا.

ریحان! میری کیا اوقات کہ میں آپ کی شان میں کچھ لکھ سکوں، میں کیسے بیان کروں کہ آپ کے، اماں یاسمین کے اور استاد کے اس عمل نے مجھ میں اور مجھ جیسے کئی کمزور دل لوگوں کے دلوں میں کتنی مضبوطی، کتنی ہمت، کتنا حوصلہ پیدا کیا ہے، وطن سے محبت کی ایک نئی قوت جگا دی ہے ہم سب کے اندر.

کتنے عظیم ہیں وہ ماں باپ، وہ بہن بھائی جنہوں نے آپ کو مسکرا کر رخصت کرتے ہوئے خوشی سے وطن پر قربان کر دیا. میں بیان کرنے سے قاصر ہوں کہ وہ لمحہ کتنا خوبصورت ہوگا، جب ماں اپنے لخت جگر کو مادر وطن کی بیرک میں لپیٹ کر ایک دولہے کی طرح سجا کر گلے لگاتے ہوئے اسکے مشن میں کامیابی کی دعا کرتے ہوئے اسے رخصت کرتی ہے اور اسکے آنکھوں میں آنسو کا ایک قطرہ تک نہیں ہوتا۔ کیسی کیفیت ہوگی وہ صرف اماں یاسمین ہی جانتی ہے. کتنی عظیم ہستی ہے بی بی یاسمین اپنے لخت جگر کو ایک ایسے مشن پر بھیج کر کامیابی کی دعا کرتی ہے کہ جہاں اسے یہ پتہ بھی ہے کہ وہ واپس نہیں آئے گا. 5 دن پہلے آخری دیدار آہ…. میرے الفاظ ساتھ نہیں دے رہے، آگے میرے الفاظ گونگے ہو گئے ایک ماں کی بہادری اور دلیری کے آگے الفاظ میرا ساتھ نہیں دے رہے…

یہی تو ہوتی ہے محبت، یہی ہے مادر وطن سے محبت کی انتہاء، نسلوں نسلوں تک ایسے بہادر لوگوں کے قصے مائیں اپنے بچوں کو سنایا کریں گی، بلکہ مائیں ایسے ہی اپنے بچوں کو خوشی خوشی وطن پر قربان ہونے کے لیئے بھیجا کریں گی.

اگر اسی طرح ہر ماں بہادری سے اپنے بچے کو وطن کی ننگ و ناموس، وطن کی آزادی، اسکی حفاظت اس کے پر امن مستقبل کے لیئے قربان کرتی گئیں، تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی طاقت ہمیں ہمارے اپنے ملک بلوچستان میں غلام نہیں رکھ سکتا. ہر ماں کو اماں یاسمین جیسا بہادر ہونا چاہیئے تاکہ وہ ریحان جیسے بہادر بیٹے جنم دے کر انکی تربیت اسی بہادری سے کر سکے.

موت تو برحق ہے، زندگی فانی ہے. سانسوں کا تسلسل ایک نہ ایک دن ٹوٹتا ضرور ہے. اگر مر ہی جانا ہے تو کیوں نہ کوئی عظیم کام کرکے ہی دنیا سے رخصت ہوا جائے، اپنے آنے والے نسلوں کو آزادی کی فضا میں سانس لینے کے لیئے کسی طور پیچھے نہ ہٹیں، کچھ اچھا کرکے ہی دنیا چھوڑ جائیں، مگر یقیناً ایسا کرنے کے لئے بہادری اور بلند حوصلے کی ضرورت ہے جو ریحان نے اپنے عمل سے ظاہر کر دیا.

شاہ دوست کے نام سے جانے جائے والے آئی-ڈی کے ذریعے ایک ایسا دوست جس کا کبھی گمان بھی نہیں ہوا کہ اتنا عظیم کام کر جائے گا کہ سب کو حیران کر دے گا. جب کبھی وہ کٹھی میٹھی تکرار یاد آتی ہے تو بس دل سے آہ نکلتی ہے کہ کیسا بہادر اور عظیم دوست ہمارے بیچ تھا، جس نے کبھی بھی محسوس ہونے نہیں دیا کہ وہ چھوٹی سی عمر میں اتنا بڑا کام کر جائے گا کہ بڑے بڑوں کی عقل دنگ رہ جائے گی. آج فخر سے کہتی ہوں کہ اس بہادر اور عظیم ریحان کی میں بھی دوست رہ چکی ہوں میں سوچتی ہوں میں کتنی کمزور ہوں یادوں کے آنے سے رو پڑتی ہوں اور اسے دیکھو وہ کتنی عظیم ماں ہے، رخصت کرتے ہوئے روئی تک نہیں. نہیں میں کمزور نہیں پڑ سکتی ریحان کی قربانی اس لیئے نہیں تھی کہ میں یا مجھ جیسے کمزور پڑ جائیں، اس نے تو حوصلہ بخشا ہے، اس نے تو نئی راہ دکھائی ہے اس کے راہ پر چل کر بہادری کا مظاہرہ کرنا ہوگا کہ ہمارے لوگوں کی مایوسی ختم ہو اور اس نے ایسے مشکل وقت میں اپنی جان کا نظرانہ دے کر تحریک میں ایک نئی جان ڈال دی ہے مایوسیوں کو ختم کیا ہے۔.

آج تک حضرت ابراہیم کی قربانی یاد کرکے اسکا مثال دیا جاتا تھا، مگر آج کے بعد بی بی یاسمین اور استاد اسلم بلوچ کی قربانی کے مثال دیئے جائیں گے. حضرت ابراہیم کی یاد میں عید قربان منایا جاتا ہے اور ریحان کی قربانی کو یاد کرکے 11 اگست بطور عید منائی جائے گی. میں سمجھتی ہوں استاد اسلم نے حضرت ابراہیم سے بڑھ کر قربانی کی مثال قائم کی ہے کیونکہ جب حضرت ابراہیم حضرت اسماعیل کی قربانی دے رہے تھے تو انہوں نے اپنی آنکھیں بند کی تھیں جبکہ استاد اسلم یہ دیکھ رہے تھے کہ کس طرح انکا بہادر بیٹا دشمن کو شکست دینے جا رہا ہے. یقیناً اللہ تعالیٰ کو بھی اس وقت استاد کا یہ سچا اور مخلص جزبہء قربانی بہت پسند آیا ہوگا.

حالات کو تبدیل کرنے اور بہتر بنانے والے اگر میدان عمل میں داخل ہونے کی زبردستی نہ کریں، تو صدیوں بلکہ قرنوں تک حالات “جوں کے توں” رہ جائیں، کہیں کوئی خلاف ورزی نہیں ہو گا، نہ ہی کوئی جرات انکار کرے گا اور کہیں کوئی موجود کو غیر موجود نہ کرے تو دنیا میں کوئی انقلاب نہ آئے، کوئی تبدیلی نہ آئے کوئی بہتری وجود میں نہیں آسکتی تھی.

مشکل وقت کو حوصلے، دانش مندی اور قربانی سے جس طرح استاد نے عظیم امکانات میں تبدیل کیا بالکل اسی طرح جس طرح اندھیری رات میں چمکنے والے ان گنت ستارے اپنے خون سے سحر پیدا کرتے ہیں. زندہ قومیں آفات اور مسائل سے گھبرانے کے بجائے ان کے اسباب کے scientific تجزیے اور ان کے حل پر اپنی توجہ مرکوز رکھتی ہیں.