حقیقت – پیادہ بلوچ

225

حقیقت

تحریر: پیادہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

سائنس و ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں سائنسی طریقہ کار کے صحیح استعمال سے ہم نہ صرف نا واقف ہیں بلکہ اپنے ہوس اور جذبے کو کچھ ناپاک اور نامناسب لمحات میں اپنے قیمتی وقت کے ساتھ ضائع کرنے کے عمل میں شب و روز لگے ہوئے ہیں، ہمارے نوجوانوں کے پاس جدید ٹیکنالوجی کا ادنیٰ سا ایک آلہ یعنی موبائل فون آیا ہے، جسے ہمارے ماں باپ اس وجہ سے خرید کردیتے ہیں کہ ہمارا بچہ دوسرے بچوں کے درمیان مایوسی کا شکار نہ ہو اور اس آلے سے کچھ اچھے معلومات حاصل کرے۔ اور بچے اس حد تک اس ناقص چیز کے گھیرائی میں ڈوب جا تے ہیں کہ اپنے وطن اور اپنے قوم کے بہادروں کی قربانیوں کو ذہن نشین کرنا، ایک حقیقت کی دنیا میں جھانکنا اور سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا صحیح استعمال کرنا اور ایک مثبت سوچ دور کی بات، وہ اپنے ماں باپ کے آواز دینے پر لفظ ‘جی؛ کا استعمال کرنا بھی گوارا نہیں کرتے ہیں۔ ان کی سوچ اک ایسی دنیا میں جا کر بسیرا کرچکا ہے، جہاں روز حسن کے بازاروں کا میلا سجا ہوتا ہو۔ جہاں ہر طرف ہیرا منڈی کی طرح فحاشی اور دلاری کا دھندہ عام ہوتا ہے، حسن کا لین دین ہوتا ہے، عزت، ننگ و ناموس کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔

اپنے قیمتی وقت کو جو کہ ایک سوچ ایک فکر اور فلسفہ ہونا چاہیئے تھا، وہ نا زیبا لمحات تک محدود ہے، عشق عاشقی کے نام پر اپنے ہاتھ چیر کر محبوب کا نام بدنام کیا جاتا ہے۔

ہمارے بلوچ نوجوان جن کی آباء اجداد نے اپنی ثقافت۔ اپنی شجاعت، اپنے رہن سہن، مہمان نوازی، حال احوال اور ہمت و حوصلے، حیاء، ننگ و ناموس اور عزت کا درس دینے اور وطن کی پاسداری میں اپنا زندگی وقف کرچکے تھے، آج ان کی اولادیںم ان کی سارے کاوشوں اور محنت کو روندتے ہوئے اپنی کامیابی کو ایک عورت کی بانہوں تک رسائی حاصل کرنے تک محدود رکھے ہوئے ہیں اور حقیقت کی راہوں کو ایک خواب کی مانند بھی نہیں سمجھتے ہیں۔ جی ہاں! وہ حقیقت ہمارے وطن کے شہیدوں نے جسکی راہیں اپنی خون کے چراغوں سے روشن کر رکھے ہیں۔

یہ وہ حقیقت ہے جہاں ہمارے وطن کے سینے کو ایٹمی دھماکوں سے چیرا گیا ہے، یہ وہ حقیقت ہے جہاں ہمارے پھول جیسے معصوم نوجوانوں کو ہمارے ماؤں، بہنوں اور بزرگوں کو لاپتہ کر کے زندانوں میں ان پر اذیت ڈھایا جارہا ہوتا ہے۔ اور ہمارے زبانوں کو بھی ظلم کے دھاگوں سے سی لیا گیا ہے کہ نہ ہم کچھ بول سکیں، نہ اپنے وطن کے جہد کاروں کو یاد کرسکیں۔

جی ہاں! یہ وہ حقیقت ہے جسے بابو نوروز نے جھالاوان کے پہاڑوں میں دشمن کے ناپاک عزائم کو مٹی میں ملایا، جسے قرآن پاک کے قسم دے کر پہاڑوں سے اتارا گیا اور بعد میں انکے ساتھیوں کو پھانسی پر لٹکاکر شہید کردیا گیا۔

یہ وہ حقیقت ہے جسے نواب اکبر خان بگٹی نے اپنی شہادت کےذریعے ثابت کردیا کہ ہماری کامیابی کو اب کوئی روک نہیں سکتا۔
جس حقیقت کیلئے شہید بالاچ مری نے شہید درویش، شہید امیرلملک، شہید شہک جان نے، شہید دلجان نے، شہید بارگ جان نے اور وطن کے کئی فرزندوں نے اپنے گواڑخ کو لہو پلایا۔

جی ہاں! یہ وہ حقیقت ہے جسے شہید ریحان جان نے کم عمری میں اپنے ایک نئے فلسفے کے ساتھ ایک نئے باب کا آغاز کرکے پوری دنیا کو حیران کرنے والے اقدام سے اپنی وطن کی خاطر بلوچستان کے شہیدوں کی خاطر اور آنے والے نسل کو آزاد دیکھنے کی خاطر اپنے کھیل کود، اپنے سینگار اور آنے والے عید کی خوشیاں، وطن کی خاطر قربان کرکے فدائین کا اعزاز حاصل کرکے مادر وطن کی گود میں چین کی نیند سوگیا۔ اسی حقیقت کے پیچھے ہماری کامیابی چھپا ہوا ہے۔

ہم سب بلوچ ہیں، ہمیں ہمارے وسائل سے محروم رکھا گیا ہے، ہمارے نسل کشی کیلئے مختلف حربے استعمال کیئے جارہے ہیں، بلوچستان کے اندر ہمیں اقلیت میں شمار کرنے کیلئے ان گنت سازشیں اور منصوبے بنائے جارہے ہیں۔

جہالت کا نام دیکر ہمیں تعلیم سے دور دھکیلا جارہا ہے، سہانے خواب دکھا کر پیاسا بناکر نقل مکانی پرہمیں مجبور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ہمیں بھی چاہیئے کہ ہم بھی اپنے شہیدوں کے سوچ و فکر اور نظریئے کو ساتھ لیکر بلوچستان میں ظلم کے خلاف لڑنے میں اپنا حصہ ڈال کر تاریخ کی راہ میں اپنا چراغ روشن کریں اور شہیدوں کے کاروان کا حصہ بنیں۔ بلوچستان میں ظلم کا سر قلم کرنے کیلئے تیغ ء جوہر دار بنیں۔ اور حقیقی راہ میں کامیابی حاصل کریں۔