بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے
تحریر: نادر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
عقل و دانش، علم و زانت، تاریخی ناانصافیوں، طویل غلامی، قبضہ گیریت، ظلم ، جبر و بربریت کو سہتے سہتے، گہری اور تخلیقی بن جاتے ہیں۔ بلوچ امریکہ، یورپ سمیت اقوام عالم کی سیاسی و معاشی کامیابیوں اور ناکامیوں پر خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں۔ سیاست، انقلاب، بغاوت و آزادی کے رموز پر مکمل عمل نہ بھی کریں۔ حق و باطل، صحیح اور غلط کی پہچان رکھتے ہیں۔ تحریک میں شامل متحرک سیاسی تنظیموں، کی مخلصانہ سرگرمیوں پر تجزیہ کریں تو کوئی بھی ادارہ نہیں جو بلوچ قوم اور بلوچ قومی تحریک سے مخلص نہ ہو۔ البتہ عمل پر “تنقید براے تعمیر” ہر انسان کا حق ہے۔ اس حق کو مثبت و شعوری طور پر استعمال کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہیئے۔
قومی تحریک میں سماج کے ہر طبقہ فکر سے تعلق داری کرنے والے جہد کار شامل ہیں۔ طلباء، اساتذہ، شعراء، ادیب، ڈاکٹر، انجینیر، وکلاء، سیاستدان، کسان، زمیندار، دانشور، لکھاری، الغرض ایسا کوئی شعبہء زندگی نہیں جسکی تحریک میں شمولیت و قربانیاں اور کاوشیں نہ ہوں۔ اگر فرد بہ فرد انکی قابلیتوں کو دیکھیں تو ان پر رشک ہونے لگتی ہے کہ بلوچ قوم خوش نصیب ہے جسکو ایسے سچے فرزند نصیب ہوۓ ہیں۔ تحریک کی کامیابیوں، ناکامیوں، انتظامی کمزوریوں، کمی کوتاہیوں اور طاقت وشعور کے سرچشموں سے یکساں علم و واقفیت رکھتے ہیں۔ کارکن سے لیکر لیڈر تک اپنے عمل میں مصروف ہیں۔ اگر غلطی سے بھی دل میں خیال پیدا ہو کہ آزادی کل نہیں پرسوں ملیگی تو توبہ استغفار کرنی پڑتی ہے۔ جہد کار پیچھلے سو سالہ تاریخ کی ایک ایک صفحے کو اتنی بار پلٹ چکے ہیں کہ صفحات تاریخ کے نہ ہوتے تو کب کے صحیفے بن چکی ہوتیں۔ روس سے لینن و اسٹالن کے بعد کارل مارکس کی ترکیبوں سے لیکر ماضی قریب و بعید کے تمام نسخوں سے غلاموں کی بستی میں سارے طبیب شب و روز اسی کوشش میں ہیں کہ جیسے تیسے اس مرض کا علاج ڈھونڈا جائے تاکہ مریض کو اور کچھ خود مرض کو افاقہ ہو۔ اتحاد و یکجہتی کے نعرے سے لیکر متوسط طبقے کی طبقاتی تقسیم، قبائلی سرداری سے لیکر نوابی تک ہر طرح سے کوشش یکساں جاری ہیں۔ کارکن، لیڈروں کے احکامات کے منتظر ہیں۔ لیڈر ؛الف؛ کہے تو کارکن انتظار کیے بنا ؛ب؛ ؛پ؛ ؛ت؛ بول دے۔
دانشور قوم میں ریڑھ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تحریک کے لیے لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔ انکی رائے کو قومی تنظیمیں، سیاسی و سماجی کارکن عملی جامہ پہناتے ہیں۔علمی و نظریاتی بنیاد پر مشاہدات، قوم کی رہنمائی کا کردار ادا کرتی ہیں جنکی مدد سے قوم کو منزل متعین کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ دانشور خود کنفوژن کا شکار ہوں تو قومی معاملات میں بھی بگاڑ پیدا ہو گی۔ دانشور انتہاہی محتاط اور حساس فکر رکھتے ہیں۔ بلوچ قوم میں علم و دانش رکھنے والے عظیم ثپوت اس کردار کو ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو حوصلہ افزاء بات ہے۔ اس میں جتنی پختگی اور علم و شعور کا دخل ہوگا سازگار ماحول پیدا ہوگی اور مثبت تبدیلیاں آنی شروع ہونگی۔
جناب صورت خان مری سے ہونے والی صوتی انٹرویو جاری ہوئی۔ ناقص رائے و کم علمی کے باوجود رائے زنی کر رہاہوں۔ جسمیں قومی سوچ اور صحافتی روایات کا فقدان نظر آیا۔علم و عمل کو کارآمد بنانے سے زیادہ شخصی معاملات کو اجاگر کرنے کی کوشیش لگی۔ کوئی بھی عمل، مثبت وکارآمد نہیں ہوتی جب تک سوچ اور روایات کو ملحوظ خاطر نہ رکھیں۔ روایت ایسی چل پڑی ہیں کہ قومی اداروں، رہنماوں اور دانشوروں کو متنازع بنایا جائے۔ کوشش کافی حد تک کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہے۔ کون سی قوم گزری ہے جو اپنے اداروں، لیڈروں، کارکنوں، دانشوروں کو خود متنازع بنائے، یہ تباہی کے راستے کے سواء کچھ نہیں۔ جو اقوام ترقی کے منازل طے کرکے دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں، انہوں نے اپنی سماج کی تشکیل و ترقی میں متحرک کرداروں کو عزت و پہچان دی ہےانکی صلاحیتوں کو مقصد کے اصول کیلئے استعمال کی ہے۔
جناب صورت خان مری نے منظم ماس پارٹی کی ضرورت پر زور دی تاکہ قومی مقصد کو حاصل کرنے میں آسانی ہو، اداروں کی اہمیت سے کوئی بھی باشعور سیاسی کارکن یا رہنما انکاری نہیں ہوسکتا بلکہ اکیسویں صدی میں سب پہلے ان اداروں کی تشکیل پر کام کی ضرورت ہے، یا پہلے سے جو ادارے موجود ہیں انکو قومی سوچ کے ذریعہ قومی اداروں کی جانب بڑھائیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ “بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے” تقریبا تمام جہدکار، دانشور، قلمکار جو ستر کی جہد یا اس سے قبل جہد کی واقعات اور عملی اقدامات کے متعلق آگاہی رکھتے ہیں، سب اپنی کوشش کرتے رہے ہیں۔ کسی نے یورپی علم و فنون کی مدد سے تو کسی نے سوشل ازم کی بنیاد پر سماجی و طبقاتی تقسیم سے بلوچ قومی تحریک کو مثبت رخ دینے کی کوشش کی ہے۔ بلوچ قوم اور نوجوان ہمیشہ ان فلسفوں اور نظریات پر لبیک کہہ کر سر اور دھڑ کی بازی لگاتے آئے ہیں۔ قومی ادارے تشکیل پا چکے نہ قومی یکجہتی ممکن ہوئی؟ سب کیوں ناکام ہوتے آرہے ہیں۔ صرف الزام تراشی کرکے ہر کوئی اپنی جان خلاصی کر رہا ہے۔ ایسا کون ہوگا جو اس تحریک کو اپنی تحریک سمجھے گا اور ناکامیوں اور کمزوریوں کی ذمہ دار خود کو سمجھے گا چاہے کوئی فرد، ادارہ یا تنظیم ہو؟
جناب صورت خان مری متحرک تنظیموں کی تنظیمی صلاحیتوں پر غیر مطمین اور تنظیمی حیثیت سے انکار کرتے ہیں، دوسری جانب دو تنظیموں کی انتظامی معاملات اور کاروائی پر خانہ جنگی اور سول وار جیسی خطرناک الفاظ کا چناو کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خانہ جنگی کب ہوتی ہے اور کیا ہوتی ہے اور کہاں ہوتی ہے۔ کیا نیشنل ازم میں خانہ جنگی کی گنجائش موجود ہے؟ یا سوشل ازم اور یورپی ملکوں کی اصطلاح ہے۔ نہ کہ نیشنل ازم یا اس تحریک سے اسکا تعلق بنتی ہے۔ بلوچ قومی تحریک اگر نیشنل ازم پر مبنی ہے تو خانہ جنگی جیسی خطرناک رویوں اور اقدامات کا نہ کوئی باشعور قوم پرست آج سوچ سکتا ہے نہ آئندہ یعنی مابعد آزادی ایسا ہوگا۔ ہاں البتہ اگر تحریک میں قوم پرست سوچ اور لٹریچر کی بجائے مارکس اور لینن کی بتائی ہوئی اصولوں پر بلوچ قوم کو ہانکنے کی کوشش ہوتی ہے، تو پھر کچھ بھی ممکن ہے۔ لیکن ایسا عمل پھر قوم پرستی کے دائرہ کار میں شامل ہوگی نہ تحریک کو قوم پرست سمجھا جائے گا۔
ریاست کے معاون کاروں کے لیے تین نمایاں اصولوں کی بات ہوئی، مگر یہ سب تب ہی ممکن ہیں کہ ادارے مظبوط ہوں مگر ان سے نمٹنے کا طریقہ بلوچ نیشنل ازم کی روح سے بیان کیا جائے تاکہ قومی نفسیات پر مبنی فیصلہ ہو۔ دوسری جانب دوست اور دشمن کے فیصلے میں جلد بازی، پارلیمانی و غیر پارلیمانی، رشتہ داریوں کی بنیاد پر کسی لیڈر یا تنظیم کو ضلعی، قوم دشمن یا تحریک دشمن قرار دینے کی بجائے تحقیق اور غیر جانب داری سے کام لی جانی چاہیئے۔ بلوچ دانشوروں کی یہ ذمہ داری ہیکہ ایسی نظریات، سوچ و فکر جو بلوچ کو بحثیت قوم تقسیم در تقسیم کی طرف لیجاتی ہیں اسکے متبادل، نیشنل ازم کی سوچ و فکر کی تعلیم و پرچار کریں تاکہ کوئی ابہام پیدا نہ ہو۔بلکہ جن بنیادوں پر ہم ہزاروں سالوں سے بلوچ بن کر اخوت و بھائی چارے سے رہ رہے ہیں ان عوامل اور اجزاء ترکیبی کو اجاگر کریں۔ نفرتوں اور طبقاتی تقسیم کی بنیاد پر ایک لیڈر اچھا تو دوسرا خراب، ایک تنظیم چھوٹی تو دوسری بڑی، یہ سب صرف اور صرف دوسری اقوام سے مستعار لی ہوئی علم، رویہ اور سوچ ہیں جنکی بنیاد پر آج ایک بھائی دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہوسکتا ہے۔
آج ایک تنظیم کمزور ہو تو سب کیلیے لمحہ فکریہ ہو۔ تمام تنظیموں کو قومی تنظیم سمجھا جائے انکی کمی کوتاہیوں کو اپنی اور طاقت کو قومی تحریک کی کامیابی قرار دی جائے۔ بلوچ نیشنل ازم کے دائرہ کار کو بیان کرکے عوام و تحریک میں قومپرستی کی سوچ کو مقبول کرنا ہوگا۔ سبکو بالاچ بنکر اتحاد و یکجہتی کو بلوچ نیشنل ازم کی بنیاد پر فروغ دینا ہوگا۔ نیشنل ازم کی بنیاد پر دوست اور دشمن کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ سب کو بلوچ بننا ہوگا، وہ بلوچ جسکی تمنا بابا خیربخش مری دل میں لیئے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔