بلوچستان میں ایک باقاعدہ نسل کشی ہو رہی ہے اور انسانی بحران جنم لے چکا ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بلوچستان کو ایک وار زون قرار دیکر فوری مداخلت کریں۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ
بلوچ آزادی پسند رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے ایک بیان میں شہدائے جھاؤ مہیم بلوچ، راشد بلوچ، اورنگزیب بلوچ اور گل شیر بلوچ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی آزادی کے لئے اور وسائل کے لوٹ مار اور استحصالی قوتوں کے خلاف بلوچ نواجوان سینہ سپر ہیں اور بیش بہا قربانیوں کے ذریعے آزادی کی جد و جہد میں اپنا حصہ ادا کر رہے ہیں جو یقیناً جذبہ اور شعوری وابستگی سے ہی ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستانی ریاست مظالم کی انتہا پر پہنچنے کے باوجود بلوچ قوم کو زیر کرنے میں ناکام ہے اور ناکام ہی رہے گا۔ آزادی بلوچ قوم کاقومی حق اور مقدر ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ایک انسانی بحران جنم لے چکا ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بلوچستان کو ایک وار زون قرار دیکر فوری مداخلت کریں۔ یہاں پاکستانی آرمی بلوچوں کے قتل عام میں مصروف ہے۔ اجتماعی قبریں بھی دنیا کے سامنے عیاں ہیں۔ ساتھ ہی بلوچوں کا سیاسی، معاشی اور غرض ہر لحاظ سے استحصال جاری ہے۔ آئے دن فوجی آپریشنوں میں گھروں اور کھڑی فصلوں کو جلانا پاکستانی فوج کا معمول بن چکاہے۔ بلوچ قوم کا ایک اور ذریعہ معاش گلہ بانی ہے، اُسے بھی اونٹ اور بھیڑ بکریوں کے چرانے اور بمباری میں ریاستی فورسز نے تباہ کردیا ہے۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دوسری انسانی حقوق کی تنظیموں کو چاہیے کہ پاکستان کو قانون کے کٹہرے میں لاکر بلوچ قوم پر ہونی والی مظالم کا نوٹس لیں۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ گزشتہ اٹھارہ سالوں سے جاری آپریشنوں اور نسل کشی کے عمل میں اس سال کے انتخابات کو ممکن بنانے کے لئے بلوچستان کے کونے کونے میں آپریشن میں انتہائی شدت لائی گئی ہے اور بے شمار لوگوں کو اغوا اور شہید کی جاچکی ہے۔ اغوا، قتل، حراستی تشدد اور قتل، مارو اور پھینکو، جعلی انکاؤنٹر، بلوچی لکھنے اور پڑھنے پر پابندی، بک اسٹالوں پر چھاپے، اور مختلف کتابوں پر بندش اور ان تمام کو میڈیا میں نہ آنے دینا جیسے اقدامات جو نسل کشی کے زمرے میں آتے ہیں بلوچستان میں جاری ہے, ایک باقاعدہ نسل کشی ہو رہی ہے۔ ایسی صورت میں عالمی اداروں کی بے حسی اور پاکستان کو کھلی چھوٹ اس انسانی بحران کو مزید سنگین کرتا جا رہا ہے۔