بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی اکیسواں قومی کونسل سیشن بنام مرکزی سیکریٹری جنرل عزت بلوچ، انفارمیشن سیکریٹری لکمیر بلوچ اور اسیران آزادی زیر صدرات مرکزی سینئر وائس چیئرمین کمال بلوچ جاری
آج اکیسواں قومی کونسل سیشن کے پہلے روز چیئرمین کا افتتاحی خطاب، تنظیمی رپورٹ اور آئین سازی کے ایجنڈے زیر بحث رہے۔ اکیسواں قومی کونسل سیشن کا آغاز شہدائے بلوچستان کی یاد میں خاموشی اور قومی ترانہ ’’ماہ چکیں بلوچانی‘‘ سے کیا گیا۔
چیئرپرسن کریمہ بلوچ نے اکیسواں قومی کونسل سیشن کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ میں اس اجلاس میں موجود اور غیر موجود تمام ممبران کو مبارکباد پیش کرتی ہوں کہ آپ وہ قومی امانت ہو جو ہمارے مستقبل سے جڑے ہوئے ہو جو ہمارے آنے والے نسل کے لئے امید و مستقبل کی ضمانت ہو اس نازک دور میں آپ نے جو تکلیفیں برداشت کرکے تنظیم کو متحرک و منظم کیا اور آج ہم بی ایس او کو نئی نسل کو منتقل کررہے ہیں جس طرح ہمارے لیڈروں نے بی ایس او کو ہمارے حوالے کیا ہم اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ ہم نے ہر طرح کی مشکلات کا مقابلہ کیا ہم نے ہر طرح کی تکلیفیں برداشت کی اور مستقبل میں بھی اس طرح کی دشواریوں کا مقابلہ کرنا پڑے گا کیونکہ اندھیری رات کا سایہ اب بھی ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے اس اندھیری رات کو ختم کرنے کے لئے ہمارے سینکڑوں ساتھی شہید ہوئے کئی ساتھی ریاستی عتاب کا شکار ہوئے جو اذیت گاہوں میں تکلیفیں برداشت کررہیے ہیں جن میں ذاکر مجید، زاہد بلوچ، عزت، نودان، لکمیر، چراغ اور دوسرے کئی ساتھی جو ٹارچر سیلوں میں پابند سلاسل ہونے کی وجہ سے اس اجلاس میں موجود نہیں ہے لیکن انکی برداشت، صبر اور امید ضرور ہمارے ساتھیوں کے حوصلوں کو بلند کریگی۔
انہوں نے کہا ان تمام مشکل حالات سے نبرد آزما ہونے اور اس مشکل عمل سے گزرنے کے باوجود ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہئیے کہ ہمارے ساتھیوں نے یہ تکالیف اس لئے برداشت کی کہ ہماری قوم ایک بہتر مستقبل دیکھ سکیں اور جہاں ہم برابری انصاف اور آزادی کی بنیاد پر اپنی زندگی بسر کرسکیں۔ آج ریاست اپنے ڈیتھ اسکواڈ اور مذہبی گروہوں کے ساتھ ملکر ہمیں نقصان دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے لیکن ہمیں یہ بات ہر گز فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اگر ہم کمزور ہوئے تو اس کی اہم وجہ ہمارے اندرونی اختلافات ہوں گے اور ایسی کوئی طاقت نہیں جو ہمیں کمزور کرسکے۔
چئیرپرسن نے کہا کہ دنیا میں ایک مرتبہ پھر فاشسٹ قوتیں سر اٹھارہی ہیں اور دنیا ایک مرتبہ پھر تباہی و بربادی کی جانب گامزن ہے بحیثیت ایک سیاسی جہد کار ہماری ذمہ داری بنتی ہیں کہ ہم بلوچ سیاست اور دنیا کی سیاست سے واقف ہو کر صحیح بنیادوں پر تجزیہ کرکے اپنے قومی آزادی کے لئے حکمت عملی ترتیب دیں ہم دیکھیں کہ دوسری عالمی جنگ میں فاشسٹ قوتوں کو شکست کے بعد اقوام متحدہ کی جدوجہد سے جو گلوبل سسٹم وجود میں آیا تھا آج وہ سسٹم آخری سانسیں لے رہا ہے اور دنیا نئی تبدیلی کی جانب محو سفر ہے وہ منفی طاقتیں جو دوسری جنگ عظیم میں شکست کھا گئی تھی جو فاشزم، نسل پرستی اور بزور طاقت دوسری قوموں پر قبضہ کرنے کے رحجان جو جاپان اور جرمنی کی شکل میں موجود تھی وہ رحجان ایک مرتبہ پھر سر اٹھارہی ہیں۔ گلوبل سسٹم کے کمزور ہونے کی وجہ سے وہ نظریات اور غیر سیاسی رویے جو طاقت کے وحشیانہ استعمال پر یقین رکھتی ہیں آج دنیا کے جمہوری روایات کو مسخ کرنے کے در پے ہے۔
فاشزم کا دلکش نعرہ جو قومی برتری اور دیگر قوموں کے کمتری کی بنیاد پر قائم ہے ہمیں خود کو اس کا شکار نہیں بنانا چاہیے بلکہ نیشنلزم اور فاشزم کے درمیان موجود واضح فرق کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے ہمیں تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ فاشسٹ قوتیں جب بھی منظر پر آئیں انکے غیر انسانی کردار اور منفی نظریہ کی وجہ سے انہیں شکست ہوئی ہمیں وہ باریک لکیر جو نیشنلزم اور فاشزم کے درمیان موجود ہے اس کو سمجھنے میں غلطی نہیں کرنی چاہیے ہماری قومی آزادی کا نظریہ ہمارے قوم کے ہر فرد کی آزادی کی بنیاد پر ہے ان کا جمہوری حق،اظہار رائے کا حق اور بہتر مستقبل کے انتخاب کا حق شامل ہیں۔
چئیرپرسن نے مزید کہا کہ پاکستان کا قیام ہی مذہب پرستی اور نسل پرستی کی بنیاد پر ہوا ہے جو مختلف نام اختیار کرتے ہوئے کبھی منظر عام پر نہیں آیا لیکن آج بلوچ نیشنلزم کی جدوجہد نے پاکستان کا گھناؤنا چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا ہے اور آج وہ بغیر پردے کے منظر عام پر آچُکا ہے اپنے ریاستی الیکشن کے ذریعے مذہبی فاشزم کو پروان چڑھانے کی جہد میں مصروف عمل ہے آج پاکستان ملاؤں پر جمہوریت کا ٹھپہ لگا کر انہیں اپنی ملکی سیاست میں اہم اختیارات تقویض کررہا ہے ان تمام کارناموں کے پیچھے پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی ملوث ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے اجزاء کو مکمل ختم کرنے کے لئے اور دنیا میں پہلی بار جمہوریت کے نام پر جمہوریت کو ختم کیا جارہا ہے نام نہاد جمہوریت کے نام پر پاکستان گزشستہ کئی عرصوں سے اپنے قبضے کو طول دینے کے لئے بلوچوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ کر انکو جائز قرار دے رہا ہے۔ ہم اس حقیقی جمہوری نظام اور غیر حقیقی جمہوری نظام کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
دنیا میں جہاں کئی بھی فاشسٹ قوتوں نے سر اٹھایا تو قومی مفادات کو جواز بنا کر اٹھایا لیکن پاکستان میں فاشزم مذہبی بنیادوں پر سر اٹھارہا ہے جس کی سرپرست پاکستانی فوج ہے اور اس فاشزم کا اہم شکار بلوچ قوم ہے اس خطے میں پاکستانی فوج کی سر پرستی میں جو مذہبی فاشزم سر اٹھارہا ہے اس سے بلوچ قوم سخت متاثر ہوگا اور اسکے بعد پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آجائیگی کیونکہ مذہبی فاشزم کے اثرات سے خود کو محفوظ رکھنا دنیا کے لئے ناگزیر ہے۔
بی ایس او آزاد کے کارکنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کریمہ بلوچ نے کہا کہ بحیثیت سیاسی جہد کار ہم فاشزم اور نیشنلزم کے فرق کو سمجھیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم کم علمی اور جذبات میں بہہ کر قومی تحریک کو نقصان سے دوچار کردیں۔ آج بلوچ تحریک میں شامل افراد قومی مفادات کے نام پر اپنی کمزوریوں پر ہونے والی تنقید کو برداشت نہیں کرسکتے اس طرح کا عمل ہمارے سیاسی کلچر کو نقصان دینے کے مترادف ہوگا ہمیں اپنے سیاسی سرکلز اور اداروں کے اندر اس نظام کے منفی روایات کی مخالفت کرنی چاہئیے اور انکے جڑ تک پہنچنے کی جدوجہد کرنی چاہئیے۔ ہمیں اپنے اداروں کے اندر ایسی روایات کی مخالفت کرنی چاہئیے جو ہماری جدوجہد کے رخ کو موڑنے کی کوشش کریں۔آمریت اور غیر سیاسی رویوں کے خلاف تنقید کرنا چاہئیے ہمیں اپنی نیشنلزم کی بنیاد جمہوری روایات اور آزادی پر رکھنے کی کوشش کو فروغ دینے کی جہد کرنے کی ضرورت ہے ہمارا سیاسی کلچر آزاد بلوچستان کے بنیاد ہونا چاہئیے۔
اگر ہم پاکستان کے ملا ملٹری تھیوکریٹک سیاست سے آزادی چاہتے ہیں تو ہمیں نفرت کرنے کے بجائے دشمن کو سیاسی سماجی اور تعلیمی میدان میں شکست دینا ہوگی اگر ہم سیاسی، شعوری اور انسانی اخلاقی اقدار کے حوالے پاکستان سے آگے بڑھ گئے تو یہ دن ہماری آزادی کا دن ہوگا جس دن ہم نے اپنے آپسی اختلاف کو پس پشت ڈال کر یکجہتی کی طرف قدم بڑھایا تو یہ ہماری آزادی ہوگی۔آزادی کا عمل انسان کے باطن سے جنم لیتا ہے اور پاکستان انسانی اخلاقی اقدار سے گرا ہوا ملک ہے اور اگر ہم نے پاکستان کی عکس بندی کرکے اخلاقی اقدار کو پاؤں تلے روندنے کی کوشش کی تو ہمارے اور قبضہ گیر کے روئیے میں کچھ فرق نہیں ہوگا اور ایسی آزادی مکمل آزادی نہیں بلکہ نیم آزادی تصور ہوگی۔ ایک بہتر انسانی معاشرے کی تشکیل کے لئے بلوچ سیاسی جہد کاروں اور طالب علموں کو لفاظی نعروں کا شکار ہونے کے بجائے مستقل مزاج جہد کار کی حیثیت سے ایک آزاد بلوچ ریاست کی بنیاد بہتر انداز میں کرنی چاہیے ۔
انہوں نے کہا سوال تنقید سیاسی بحث و مباحثہ سیاسی و علمی کلچر کو پروان چڑھانے کی جدوجہد ہماری ذمہ داری ہے اور ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم آزاد بلوچ ریاست کے لئے ملکی و غیر ملکی سطح پر جدوجہد کریں ہمیں اپنے مفادات کو آزاد دنیا سے جوڑے رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے اپنے ادارے کے اندر کسی ایسی روایات کو پنپنے نہیں دینا چاہیے جو ہمارے ادارے ہمارے سیاسی کلچر اور ہمارے علم و شعور کو نقصان سے دو چار کرکے اور ہماری صلاحیتوں کو پروان چڑھنے نہ دے۔ آج بی ایس او آزاد کے دوستوں کو جان لینا چاہیے کہ بی ایس او کو آزاد حیثیت میں فعال کرنے کے لئے کئی ساتھیوں کی قربانیاں شامل ہیں اس ادارے کو ہم نے اپنی جان اور خاندان سے ہمیشہ عزیز جانا اور میں امید کرتی ہو ں کہ ہمارے آنے والے ساتھی اسی فلسفے پر کار بند ہو کر اپنی جدوجہد کو منزل پر پہنچائیں گے۔ بی ایس او آزاد کے ساتھی اپنے ادارہ جاتی معاملات میں کسی کو مداخلت کرنے کی اجازت نہیں دینگے کسی کو یہ اختیارات نہیں دینگے کہ وہ فیصلہ سازی کے عمل میں رکاوٹ ڈالے۔ میں امید کرتی ہوں کہ بی ایس او آزاد کے لیڈران بی ایس او کو بلوچ سماج میں ایک الگ انداز میں سامنے لائینگے جو بلوچ معاشرے میں بلوچ عوام کی حقیقی ترجمان ہوگی اپنا ہر عمل علم و شعور کی بنیاد پر سر انجام دینگے اس کھٹن اور مشکل سفر میں کئی ساتھی بچھڑ گئے جن کے خلاء کو پر تو نہیں کیا جا سکتا لیکن بی ایس او آزاد کا ہر نوجوان اپنی اپنی بساط کے مطابق اس جدوجہد کو آگے بڑھائے گا اور اپنے ساتھیوں کے فکر و عمل کا حقیقی وارث ہوگا۔
چئیرپرسن نے مزید کہا کہ بی ایس او کا ممبر شپ میرے لئے ہمیشہ اعزاز کا باعث ہوگا اور میں بی ایس او کی ممبر ہونے پر ہمیشہ فخر محسوس کرونگی کیونکہ مجھے اس پلیٹ فارم سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا جو تجربہ اور شعور بی ایس او کے پلیٹ فارم سے مجھے حاصل ہوا وہ میری زندگی کا نایاب ترین تحفہ ہے بی ایس او آزاد کے اس بارہ سالہ سفر میں جو تربیت ہوئی وہ ہمیشہ میری رہنمائی کریں گی۔
اپنے خطاب کے آخر میں انہوں نے کہا کہ میں آج اپنے عہدے اور رکنیت سے فارغ تو ہورہی ہوں لیکن میں فخر سے کہتی ہو ں کہ بی ایس او میری پہچان ہے اور میری زندگی کا ایسا حصہ ہے جس سے الگ رہ کر میری زندگی نا مکمل ہے اس اجلاس میں موجود بی ایس او کے ساتھی میرے مستقبل کی امید ہیں میں ہر وقت اور ہر مشکل ترین حالات جو بی ایس او پر آئیں گے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ہونگی۔
اکیسواں قومی کونسل سیشن کے پہلے روز چیئرمین کا افتتاحی خطاب کے بعد تنظیمی رپورٹ اور آئین سازی کے ایجنڈوں پر سیر حاصل بحث کیا گیا پہلے روز اختتام تک آئین سازی کا ایجنڈہ مکمل نہ ہونے کے سبب دوسرے روز آئین سازی کے ایجنڈے پر بحث جاری رہے گا۔