جبری گمشدگی کا عالمی دن اور بلوچ ماؤں کی فریاد – عبدالواجد بلوچ

510

جبری گمشدگی کا عالمی دن اور بلوچ ماؤں کی فریاد

تحریر : عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

برسوں قبل 30اگست کو عالمی سطح پر یوم گمشدگان کے طور پر منانے کا سلسلہ لاطینی امریکہ کے ملک کوسٹاریکا سے شروع ہوا، جہاں لاپتہ افراد کے لواحقین کی انجمن نے اس دن کو سالانہ طور اپنے گمشدہ لواحقین کی بازیابی کیلئے توجہ مبذول کروانے کیلئے منانا شروع کیا۔ اسی پس منظرمیں حسب روایت 30 اگست کوعالمی سطح پر یوم گمشدگان منایا جارہا ہے.

لاطینی امریکہ سے شروع ہونے والی یہ لہر بعد میں یورپ کے دیگر ممالک سے ہو کر اب یہ اکیسویں صدی میں پاکستان بالخصوص بلوچستان میں شدت کے ساتھ ہنوز جاری ہے.

کسی گھر کا کوئی فرد اگر مرجائے تو لواحقین کو آخرکار صبر آجایاکرتا ہے لیکن جس گھر کا کوئی فرد اٹھالیاجائے، گم شدہ ہوجائے یا غائب کردیا جائے تواس کو کیسے چین نصیب ہو سکتا ہے کہ وہ کس حال میں ہے، کہاں ہے اور کس کی گرفت میں ہے. یہی لمحہ اس خاندان کو زندگی بھر پریشان کرتی رہتی ہے، جب تک ان کے پیارے گھر نا لوٹ آئیں.

آج 30اگست جبری گمشدگی کا عالمی دن ہے، پاکستان نے بلوچستان کو ایک مقتل میں تبدیل کردیا ہے، تاریخ وتہذیب سے محروم مذہبی جنونی سوچ کی بنیاد پر تشکیل کردہ ادارے بلوچستان میں جبری گمشدگی اور ماورائے قانون قتل کے واقعات میں روزانہ کی بنیاد پر شدت لا رہے ہیں. بلوچستان کے آبادی کے بیشتر حصے میں اوسطاً ہر خاندان کا ایک فرد جبری طور پر فورسز کے ہاتھوں غائب کیا گیا ہے اور باقی ماندہ فورسز کی عتاب اور ممکنہ گمشدگی کے خوف میں زندگی گذارنے پر مجبور ہیں. دسمبر 2015کو نیشنل ایکشن پلان کے نام پر تشکیل دی گئی، ظالمانہ قوانین کے تحت بلوچستان میں پہلے سے جاری نسل کشی کی کاروائیوں میں انتہائی تیزی لائی گئی ہے، سرکاری دعوؤں کے مطابق صرف رواں سال 14ہزار کے قریب افراد کو بلوچستان کے مختلف علاقوں سے گرفتار اور 330سے زائد افرادکو قتل کیا جاچکا ہے، جو کہ اصل تعداد سے انتہائی کم ہیں۔ فورسز دیدہ دلیری سے لوگوں کو مارنے اور اغواء کے بعد لاپتہ کرنے کا روش بدستور جاری ہے لیکن پاکستانی میڈیا کے نمائندے اور انسانی حقوق کے نام پر بننے والی تنظیمیں، اِن سے یہ پوچھنے کی زحمت نہیں کرتے کہ لوگوں کو کس قانون کے تحت لاپتہ کیا جارہا ہے اور نہ ہی مسخ شدہ لاشوں کے حوالے سے فورسز اور اس کے کٹھ پتلی نمائندوں سے جواب طلبی کی کوشش کی گئی ہے.

پاکستان کی سفاکیت کی اس آگ نے بلوچ سرزمین کے باسی بلوچ قوم کے ہر طبقہ فکر کو اپنے لپیٹ میں لیا ہوا ہے، بلوچ سیاسی کارکنان، ڈاکٹرز، وکلاء، اساتذہ، مزدور و کسان ،نہتے عوام اور حتیٰ کہ خواتین و کمسن بچے بھی محفوظ نہیں۔ بلوچستان پر اپنے جبری قبضے کو برقرار رکھنے کے لئے قابض کی پالیسیاں شروع دن سے ہی غیر انسانی رہیں ہیں، مگر جبری گمشدگی جیسے پر تشدد عمل میں خوفناک حد تک اضافہ 2009ء میں سامنے آیا، جب پاکستانی سیکیورٹی اداروں نے بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے مرکزی چیئرمین غلام محمد بلوچ، شیر محمد بلوچ اور لالا منیر بلوچ کو ماورائے آئین و قانون جبری طور پر لاپتہ کرنے کے بعد ان کی لاشیں مسخ کرکے ’’مارو اور پھینک دو‘‘ (KILL AND DUMP)پالیسی کی ابتداء کی.طاس پالیسی کو اختیار کرنے کے بعد اب تک ہزاروں کے قریب سیاسی کارکنان، طلباء اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی لاشیں پھینکی گئی ہیں جبکہ 25ہزار سے زائد جبری طور پر گمشدہ بلوچ فرزندان جس میں خواتین و بچے بھی شامل ہیں، پاکستانی خفیہ اداروں کی تحویل میں ہیں.

جبری گمشدگیوں کے خلاف لاپتہ افراد کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ فرسنز کے روح رواں ماما قدیر بلوچ نے بانک فرزانہ مجید بانک سمی بلوچ اور کساں سال حیدر رمضان کے ساتھ تین ہزار کیلو میٹر طویل لانگ مارچ کی لیکن عالمی اداروں سمیت کسی کی کان میں جوں تک نہیں رینگی، لیکن اس کے باوجود ماما قدیر پیراں سالی میں اپنے زندگی کا ہر لمحہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے قربان کررہا ہے. بلوچستان میں جاری شورش اور قومی بقاء کی رواں تحریک کو کریش کرنے کے لئے تحریک سے منسلک افراد کو عام بلوچ سمیت گمشدہ کرنا اب معمول بن چکا ہے.

بلوچ قومی تحریک آزادی نہ صرف بلوچ قومی تشخص و بقاء، بلوچ جغرافیہ کی تحفظ اور خوشحال و محفوظ بلوچ مستقبل کے حصول کیلئے قبضہ گیر و استحصالی قوتوں سے برسرپیکار ہے، بلکہ خطے اور دنیا کے امن پسند و معتدل سوچ رکھنے والے اقوام اور طبقات کے ترقی پسندانہ سوچ کا عکاس بھی ہے. کیونکہ بلو چ قومی تشکیل اور سماجی تبدیلی کا جس قدر بلوچ قومی تحریک پر انحصار ہے، اس کی کامیابی خطہ اور عالمی امن و امان کیلئے بھی انتہائی ناگزیر ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل و دیگر ادارے بلوچستان میں ہونے والے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر اپنی قانونی اوراخلاقی ذمہ داریوں سے روگردانی کرکے فورسز کو اس طرح کی کاروائیوں کو جاری رکھنے کا جواز فراہم کررہے ہیں.