بی ایس او آزاد کی کونسل سیشن اختتام پذیر

290

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی اکیسویں قومی کونسل سیشن اختتام پذیر, سہراب بلوچ مرکزی چیئرمین ، شاہ میر بلوچ مرکزی سیکریٹری جنرل منتخب

(دی بلوچستان پوسٹ ویب ڈیسک)

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کا اکیسواں قومی کونسل سیشن بنام مرکزی سیکریٹری جنرل عزت بلوچ، انفارمیشن سیکریٹری لکمیر بلوچ اور اسیران آزادی زیر صدرات مرکزی سینئر وائس چیئرمین کمال بلوچ جاری رہا۔ آج اکیسویں قومی کونسل سیشن کے تیسرے اور آخری روز تنقید برائے تعمیر ،عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال اور آئندہ کا لائحہ عمل کے ایجنڈے زیر بحث رہے ۔

بی ایس او آزاد کے کونسل سیشن کے تیسرے اور آخری روز تنقید برائے تعمیر کے ایجنڈے پر بحث مباحثے کے بعد عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال پر بحث کرتے ہوئے قومی کونسل سیشن کے کونسلران نے کہا کہ عالمی سیاست میں رونما ہونے والے تبدیلیاں اپنی ماضی کو دہرارہی ہے۔ عالمی معیشت پر غالب رہنے کے لیے دنیا میں ہونے والے صف بندیوں کے نتیجے میں دنیا کے واضح طور مختلف بلاک میں تقسیم ہونے سے عالمی سیاست میں پیچیدگیاں بڑھتی جارہی ہے۔سویت یونین کے انہدام کے بعد ناقابل یقین طور پر سراٹھانے والے روسی فیڈریشن دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت چین کے ہمراہ سینٹرل ایشیا، جنوبی ایشیا، مشرقی وسطیٰ،مشرقی یورپ اور افریقہ میں واضح اثر و رسوخ رکھنے میں کامیاب ہوئی ہیں ۔

دوسری جانب دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت متحدہ ہائے امریکہ دنیا کی معیشت اپنے غلبے کو برقرار رکھنے اور اپنے سخت ترین حریف چین اور روس کے بڑھتی ہوئی اثر ورسوخ کو روکنے کے لیے جہاں پرانے جنگی محاذوں کو بند رکھنے کی کوششیں کررہا ہے وہاں نئے جنگی محاذ کھلنے کی قوی امکان بھی روشن ہیں ۔ امریکی جنگی تاریخ میں افغان جنگ سب سے طویل اور تمام جنگوں سے مہنگا ثابت ہوا ہے لیکن اس محاذ پر امریکہ کا موجود رہنا امریکہ کی ایشیائی خارجہ پالیسی کے لیے انتہائی اہم ہے اس لیے امریکہ طالبان کو سخت دباؤ میں رکھنے کی کوشش کررہا ہے پچھلے سال اگست میں صدر ٹرمپ نے افغان جنگ سے متعلق حکمت عملی کے ازسر نوجائزے کا اعلان کیا تھا ،ان کی حکمت عملی میں طالبان پر زیادہ فوجی دباؤ ڈالنا ، پاکستان کو مزید تعاون کے لیے دباؤ میں رکھنا اور امن مذاکرات شروع کرنے پر توجہ مرکوز کرنا شامل تھا۔صدرٹرمپ کی ایشیائی پالیسی کے بعد 2018ء کی پہلی شش ماہی میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر 2911بم گرائے یہ تعداد گذشتہ سال افغانستان میں اس مدت کے دوران استعمال کیے گئے بمبوں کے مقابلے میں تقریباً دوگنا ہے تو دوسری جانب طالبان کو مذاکرات کے میز پر لانے کی بھی کوششیں ہورہی ہے ۔ طالبان کے خلاف کاروائیوں میں تیزی اور حالیہ قطر مذاکرات اس بات کی غماز ہے کہ امریکہ مستقل طور پر اس خطے میں رہنے اور اپنے حریف طاقتوں کے اثر و رسوخ کو روکنے کے طالبان کو کم سے کم شرائط پر مذاکرات کے میز پر لانے کی کوشش کررہا ہے۔جبکہ امریکہ مشرقی ایشیا میں اپنے دو اہم حلیف جاپان اور ساوتھ کوریا کو چین سے تحفظ دینے کے خاطر اپنے دیرینہ حریف شمالی کوریا کومذاکرات کے میزپرلانے کی کوشش کررہا ہے تاکہ مشرقی ایشیا میں امریکی اثر و رسوخ سخت مشکلات کا شکار نہ ہو ۔لیکن عالمی سیاست میں اس وقت سب سے بڑی خبر ایران اور امریکہ کے درمیان جنگی ہواؤں کا تیزی کے ساتھ چلنا ہے ۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے ایران کے عالمی جوہری معاہدے سے نکل جانے اور ایران پر معاشی پابندیوں کے اعلان نے جہاں ایرانی معیشت ہلاکر رکھ دیا وہاں اپنے حلیف اور حریف دونوں کو سخت امتحان میں ڈال دیا ہے۔ ایران کے ساتھ عالمی جوہری معاہدے کے بعدبڑے بڑے یورپی کمپنیوں نے ایران کا رخ کیا ہے لیکن عالمی جوہری معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے سے یورپی یونین شدید مشکلات میں دکھائی دیتی ہے ایک طرف چین اور روس کی یورپی منڈیوں کی جانب پیش قدمیوں کو روکنے کے لیے ماضی کی طرح امریکی سرپرستی درکار ہے تو دوسری صدر ٹرمپ کی سخت گیر پالیسیوں سے نالاں بھی ہے۔موجودہ ایران اور امریکہ کے بیچ موجود جنگی ماحول نے نہ صرف یورپی یونین کومتاثر کیا ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں اہم امریکی اتحادی بھارت بھی شدید مشکلات میں ہے کیونکہ بھارت کی خطے میں بڑھتی ہوئی اثر ورسوخ میں ایران اہم اتحادی کا کردار ادا کررہا ہے۔ جبکہ اس تمام تر صورتحال کے باوجود بھارت اور یورپی یونین کے لیے امریکہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ چین کی توسیع پسندانہ معاشی پالیسی یورپ اور بھارت دونوں کے لیے خطرے کی علامت ہے ۔

افغانستان اور ایران میں ہونے والی تبدیلیوں کے بلوچستان پر رونما ہونے والے متوقع اثرات پر نظر ڈالتے ہوئے رہنماؤں نے کہا کہ افغان جنگ میں پاکستان نے بلوچ سرزمین کو بطور جہادی انڈسٹری استعمال کیا اور پورے اس خطے میں انتہا پسندانہ نظریے کو فروغ دینے سے بلوچ قوم براہ راست پاکستان کی انتہاپسندانہ نظریے سے متاثر ہوا اورآج اس نظریے نے وسیع پیمانے پر فروغ حاصل کیا ہے شاہد آنے والے وقت میں بلوچ قوم کو اس کے سنگین نتائج بھگتنے پڑے گے ۔پاکستان کی انتہا پسندانہ پالیسیوں نے بلوچ اور افغان قوم کو یکساں مشکلات سے دوچار کیا ہے افغانستان سے انتہاپسندی کا خاتمہ اور قیام امن نہ صرف افغان قوم بلکہ بلوچ قوم سمیت پورے اس خطے میں امن ،ترقی اور خوشحالی کا باعث ہوگا لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان سے انتہاپسندی کا خاتمہ اور قیام امن کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان سے جہادی انڈسٹریوں کا خاتمہ کیا جائے۔پاکستانی ریاست نظریاتی بنیادوں پر جہادی انڈسٹریوں کو وسعت دے رہا ہے تمام تر عالمی دباؤ اور پابندیوں کے باوجود بین القوامی سطح پر مطلوب دہشتگرد اور ان کے جماعتیں پاکستان کے ریاستی انتخابات میں حصہ لیتے ہیں اور آزادانہ نقل و حرکت کے لیے ان قوتوں کو مکمل ریاستی سرپرستی حاصل ہے۔ پاکستان کی انتہاپسندانہ پالیسیاں اور چین کی اس خطے میں عسکری عزائم اس خطے کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔افغانستان میں قیام امن نہ صرف اس خطے کے لیے باعث امن ہوگا بلکہ چین کے توسیع پسندانہ پالیسیوں کو روکنے میں بھی معاون ثابت ہوگا لیکن ہمیں شدید خدشات لاحق ہے پاکستان بلوچ سرزمین کو اپنے مذہبی انتہاپسندانہ پالیسیوں کے لیے مسلسل استعمال کرتا رہے گا جس طرح عالمی دہشتگرد تنظیم داعش اور چین کو اپنے عسکری عزائم کی تکمیل کے لیے بلوچ سرزمین تک رسائی دینے سے اس بات کے مکمل امکانات روشن ہے عالمی طاقتوں کے ٹکراؤ کی صورت میں بلوچ سرزمین براہ راست متاثر ہوگا ۔

بی ایس او آزاد رہنماؤں نے مزید کہا کہ بلوچ عوام اور سرزمین ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہے بلوچ سرزمین عالمی دہشتگردی اور چین جیسے طاقتوں کے عسکری منصوبے کی صورت میں رونما ہونے والے تباہی کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے ۔بلوچ عوام ایک آزادو پرامن بلوچستان کے ساتھ اس پورے خطے کو انتہا پسندی سے پاک ایک پر امن و ترقی یافتہ خطہ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ بلوچ سیاسی قیادت ہمارے خطے میں رونما ہونے والے تبدیلیاں اور بلوچستان پر اس کے اثرات کا گہری مشاہدہ کرکے واضح حکمت عملی اپنائے کیونکہ بین الاقوامی طاقتوں کے مابین ٹکراؤکی صورت میں بلوچ سرزمین بطور جنگی میدان کے استعمال ہونے کا امکان ہے اس ضمن میں بلوچ سماج میں موجود مفاد پرست قوتیں معاون کار کا کردار ادا کریں گے ۔کونسلران نے حالیہ پاکستانی انتخابات اور بلوچستان پر اس کے اثرات پر نظر ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں انتخابات کے نام پر پاکستان کے مُلاّ ملٹری اسٹبلشمنٹ اپنے لوگ منتخب کرتے ہیں پاکستان کے حالیہ انتخابات اس کے واضح مثال ہے۔کونسلران نے بلوچ نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ نوجوان جو پاکستانی الیکشن اور پارلیمانی پارٹیوں سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے تھے یقیناًحالیہ انتخابات ان کے لیے سبق آمیز رہا ہے ۔پاکستان میں آمریت سے لیکر نام نہاد جمہوریت تک سب کی ڈوریں مُلّا ملٹری اسٹبلشمنٹ کے کورٹ سے چلائے جاتے ہیں ۔ پاکستانی فیڈریشن میں بلوچ قومی حقوق حاصل کرنے کے دعویدار پارلیمانی پارٹیاں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کے خاطر مُلّا ملٹری اسٹبلشمنٹ کے سامنے قطار لگائے ہیں اس عمل سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستانی فیڈریشن میں ان کی اوقات ٹشو پیپرز سے زیادہ کی نہیں ہے ۔ بلوچ عوام خاص کر وہ بلوچ نوجوان جو ان اقتدار کے بھکاریوں سے اچھائی کی امید لگائے ہوئے ان کے ماضی کو مطالعہ کریں کہ کس طرح یہ قوتیں اپنے قبائلی اور زاتی مفادات کو تحفظ دینے کے خاطر بلوچ قوم پرستی کے نعرے کو استعمال کرتے ہیں ۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی آج اکیسویں قومی کونسل سیشن کے تیسرے اور آخری روز تنقید برائے تعمیر ،عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال اور آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈوں پر سیر حاصل بحث کے بعد تنظیمی ڈھانچے کو تحلیل کرکے تنظیمی آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کا قیام عمل میں لایاگیا ۔سینئر وائس چیئرمین کمال بلوچ کی سربرائی میں تین رُکنی الیکشن کمیشن نے مرکزی کابینہ اور مرکزی کمیٹی کے ممبران کے چناؤ کے لیے الیکشن کا انعقاد کرایا ۔ تنظیمی الیکشن میں مرکزی کابینہ اور مرکزی کمیٹی کے تمام ممبران ماسوائے مرکزی وائس چیئر پرسن کے تمام عہداداران بلامقابلہ منتخب ہوئے ، مرکزی وائس چیئرپرسن کے لیے مروارد بلوچ نے مقابلے کے بعد کامیابی حاصل کی ہے ۔بی ایس او آزاد کے نو منتخب مرکزی چیئرمین سہراب بلوچ ، مرکزی وائس چیئرپرسن مروارد بلوچ ، مرکزی سیکریٹری جنرل شاہ میر بلوچ ہیں۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی اکیسویں قومی کونسل سیشن کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہونے کے بعد تقریب حلف برداری منعقد ہوئی جس میں الیکشن کمیشن کے سربراہ سابقہ سینئر وائس چیئرمین کمال بلوچ نے نومنتخب عہداران سے حلف لیا ۔آخر میں نومنتخب چیئرمین سہراب بلوچ نے بی ایس او آزاد کے تمام ممبران کو کامیاب کونسل سیشن منعقد کرنے پر مبارک پیش کیا ہے۔