بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد۔ ٹی بی پی فیچر رپورٹ

876

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد

دی بلوچستان پوسٹ فیچر رپورٹ

بہزاد دیدگ بلوچ

 

بلوچستان کے حالات گذشتہ طویل عرصے سے سیاسی سرگرمیوں کیلئے حد درجہ نا موافق رہے ہیں، جمہوری سیاسی عمل سے منسلک سیاسی کارکنان کا اغواء اور قتل معمول بن چکا ہے۔ پاکستانی وفاقی ادارہ برائے انسانی حقوق کے اعدادو شمار کے مطابق بلوچستان میں 2011 سے لیکر 2016 تک قتل کیئے جانے والے سیاسی کارکنان کی تعداد 936 رہی ہے۔ جن میں سیاسی جماعتوں کے سرکردہ رہنما بھی شامل ہیں، اشارتاً اسکا ذمہ دار وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر لگاتے رہے ہیں، جبکہ بلوچ سیاسی جماعتوں کے مطابق تعداد اس سے کئی گنا زیادہ اور ہزاروں میں ہے۔ بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے متحرک غیر سرکاری تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے اعدادو شمار کے مطابق اس وقت 25000 ہزار سے زائد سیاسی کارکنان اغواء ہونے کے بعد لاپتہ ہیں۔

تمام اعدادو شمار اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ بلوچستان ایک ایسا خطہ زمین نہیں کہ جہاں اظہار رائے کی آزادی کے تحت سیاسی عمل آزادانہ اور جمہوری طریقے سے جاری رہے اور پنپنے میں کامیاب رہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں لوگ مسلح جدوجہد کی جانب زیادہ مائل ہوجاتے ہیں۔

اس پورے صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والی تنظیم ایک مقبول بلوچ طلبہ تنظیم رہی ہے، جسے بلوچستان میں ” بی ایس او آزاد” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن، جس کے نام کے سامنے آزاد کا لاحقہ لگا کر، اس تنظیم کو ہمعصر طلبہ تنظیموں سے ممتاز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ گذشتہ ایک دہائی کے دوران اس تنظیم کے سینکڑوں کارکنان و رہنما مارے گئے ہیں یا اس وقت لاپتہ ہیں۔

معاملے کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر گذشتہ ایک دہائی کے دوران بی ایس او آزاد کے اعلیٰ ترین قیادت پر ایک نظر ڈالیں تو اس وقت بی ایس او آزاد کا ایک چیئرمین قریباً چار سال سے گرفتاری کے بعد لاپتہ ہیں، ایک وائس چیئرمین کو لاپتہ ہوئے 9 سال ہوچکے ہیں، تیسرے بڑے عہدے یعنی ایک سیکریٹری جنرل کو لاپتہ ہوئے دس ماہ کا وقت ہونے کو ہے اور ایک سیکریٹری جنرل فورسز کے ساتھ ایک مبینہ مقابلے میں مارے گئے ہیں، ایک  مرکزی جونیئر جوائینٹ سیکریٹری کی مسخ شدہ لاش مل چکی ہے اور مرکزی ترجمان کو لاپتہ ہوئے دو سال ہونے کو ہے۔ یہ حالت محض اعلیٰ ترین قیادت، سات رکنی مرکزی کابینہ کی رہی ہے۔ مرکزی کمیٹی اور زونل رہنماؤں کی جبری گمشدگیوں و ٹارگٹ کلنگ کی تعداد درجنوں میں ہے۔

“بی ایس او آزاد اس طرح سے ایک منفرد جماعت رہی ہے کہ ان تمام تر سخت حالات کے باوجود، یہ نا صرف تنظیم میں ادارہ جاتی ہیت کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے بلکہ تنظیم کے اندر جمہوری عمل کو جاری رکھا گیا ہے اور ادارہ سازی جمہوری طریقے سے کرتی رہی ہے۔” بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات سے تعلق رکھنے والے ایک لیکچرار نے نام ظاھر نا کرنے کے شرط پر دی بلوچستان پوسٹ کو بتایا۔

اسی جمہوری سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے بی ایس او آزاد نے اپنے اکیسویں کونسل سیشن کا انعقاد 1 تا 3 اگست کو منعقد کیا۔ یہ کونسل سیشن مرکزی سیکریٹری جنرل عزت بلوچ اور مرکزی انفارمیشن لکمیر بلوچ کے بغیر منعقد ہورہی تھی کیونکہ بی ایس او آزاد کے دونوں مذکورہ لیڈر اس وقت لاپتہ افراد کے فہرست میں ہیں۔ لہٰذا بی ایس او آزاد نے اپنا یہ کونسل سیشن مذکورہ لیڈران سمیت دوسرے سیاسی اسیران کے نام سے منسوب کردیا۔

کریمہ بلوچ کونسل سیشن کے وقت بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی چیئرپرسن تھی، وہ بی ایس او کی چار دہائیوں طویل تاریخ میں پہلی اور ابتک واحد خاتون چیئرپرسن رہیں ہیں۔ اجلاس کے پہلے ہی روز انہوں نے اعلان کیا کہ مدت پورا ہونے کے بعد وہ بی ایس او آزاد کے چیئرمین شپ اور ممبر شپ سے بھی الگ ہورہی ہیں۔ انہوں نے اپنے اس طویل کیرئیر کا خاتمہ ان الفاظ کے ساتھ کیا کہ “بی ایس او کا ممبر شپ میرے لیئے ہمیشہ اعزاز کا باعث ہوگا اور میں بی ایس او کے ممبر ہونے پر ہمیشہ فخر محسوس کرونگی کیونکہ مجھے اس پلیٹ فارم سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا جو تجربہ اور شعور بی ایس او کے پلیٹ فارم سے مجھے حاصل ہوا، وہ میری زندگی کا نایاب ترین تحفہ ہے۔ بی ایس او آزاد کے اس بارہ سالہ سفر میں جو تربیت ہوئی وہ ہمیشہ میری رہنمائی کرے گی۔ میں آج اپنے عہدے اور رکنیت سے فارغ تو ہورہی ہوں لیکن میں فخر سے کہتی ہوں کہ بی ایس او میری پہچان ہے اور میری زندگی کا ایسا حصہ ہے، جس سے الگ رہ کر میری زندگی نا مکمل ہے۔”

تین اگست کو بی ایس او آزاد نے اعلان کردیا کہ ایک کامیاب کونسل سیشن کا انعقاد ہوگیا ہے، اور جمہوری طریقے سے نئے قیادت کا چناو ہوگیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق سہراب بلوچ تنظیم کے نئے مرکزی چیئرمین جبکہ شاہ میر بلوچ مرکزی سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔

یہاں کامیاب کونسل سیشن کا لفظ معنی خیز ہے کیونکہ چار دہائیوں کی تاریخ رکھنے والی تنظیم بی ایس او کامیاب کونسل سیشنوں کی تاریخ نہیں رکھتی۔ ایسے بہت کم کونسل سیشن گذرہے ہیں جہاں فریقین نے ایک دوسرے پر دھاندلی کا الزام نہیں لگایا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کونسل سیشنوں پر اکثر بی ایس او دو لخت ہوتا رہا ہے۔ یہاں دوسری وجہ سیکیورٹی کی تھی کہ بی ایس او کے کارکنان نشانہ بن رہے تھے، لہٰذا بلوچ حلقوں میں بی ایس او آزاد کے پورے سینئر قیادت کی ایک جگہ جمع ہونے کو بہت بڑا خطرہ قرار دیا جارہا تھا، لیکن کسی نا خوشگوار واقعے کی کوئی اطلاع نہیں آئی۔

اس موقع پر بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) کی نئی کابینہ کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے اپنے ایک پیغام میں کہا کہ” نئی کابینہ بی ایس او میں تنظیم نواورپالیسیوں میں جدت لاکر بلوچ نوجوانوں کی رہنمائی کافریضہ انجام دیتارہے گا۔”

خلیل بلوچ کا اپنے پیغام میں مزید کہنا تھا کہ ” بلوچ قوم میں بی ایس او کا کردار ہمیشہ نمایاں رہاہے۔ میں فخر سے کہتاہوں کہ مجھ سمیت اکثر سیاسی کارکنوں کی ترتیب بی ایس او کے پلیٹ فارم سے شروع ہوئی ہے۔ اس لیئے بی ایس او کا بلوچ معاشرے میں ایک خاص قدر و منزلت ہے۔”

بشیر زیب بلوچ بی ایس او آزاد کے سابقہ چیئرمین رہ چکے ہیں، وہ دو مدتوں کیلئے تنظیم کے چیئرمین منتخب ہوئے تھے اور 2006 سے لیکر سنہ 2011 تک وہ تنظیم کی قیادت کرتے رہے۔ اپنے ایک پیغام میں کامیاب کونسل سیشن کرنے پر بی ایس او آزاد کی قیادت کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ” بی ایس او آزاد کے پر عزم نوجوانوں نے انتہائی پرکھٹن اور مشکل حالات میں بھی کونسل سیشن کا انعقاد کرکے اسے کامیاب بنا دیا، جو قابل تحسین سیاسی عمل ہے۔ سابق چیئرمین کی حیثیت سے تمام بلوچ طلبہ اور طالبات سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے تعلیم کے ساتھ ساتھ علم و شعور کی حصول کے خاطر بی ایس او آزاد کے پلیٹ فارم سے منسلک ہوکر بلوچ سیاست میں اپنا قومی فرض ادا کریں۔”

معروف بلوچ محقق و دانشور میر محمد علی تالپور کے رائے کو بلوچ سیاسی حلقوں میں قدر و منزلت حاصل ہے، انہوں نے بھی ٹوئیٹر پر نو منتخب قیادت کو مبارک بار پیش کرتے ہوئے کہا کہ ” بی ایس او آزاد بلوچ قومی تحریک کا ہر اول دستہ ہے۔ بی ایس او آزاد کے اکیسویں کونسل سیشن کا کامیابی کے ساتھ انعقاد ہوا اور سہراب بلوچ چیئرمین و شاہ میر بلوچ سیکریٹری جنرل منتخب ہوئی۔ میں بی ایس او آزاد اور نئی قیادت کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔”

منتخب ہونے کے بعد نومنتخب چیئرمین سہراب بلوچ نے اپنے ٹوئیٹر اکاونٹ سے ایک پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ ” یہ میرے لیئے فخر کی بات ہے کہ میں بی ایس او آزاد کے اکیسویں کونسل سیشن میں چیئرمین منتخب ہوا۔ میں تمام کارکنان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے ان سخت حالات کے باوجود کونسل سیشن کا کامیاب انعقاد کیا، اور میں ان تمام دوستوں کا شکر گذار ہوں جن کی حوصلہ افزائی سے یہ کارواں رواں دواں ہے۔”

سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ آنے والا وقت بی ایس او آزاد کیلئے آسان نہیں ہوگا، موجودہ کونسل سیشن میں تنظیم کی سابقہ سینئر قیادت فارغ ہوگئی ہے اور جس کیڈر کو انکا خلاء پر کرنا تھا، وہ کونسل سیشن سے پہلے ہی گرفتار ہوکر لاپتہ ہوگئے۔ لہٰذا اب موجودہ قیادت کے صلاحیتوں کی کڑی آزمائش ہوگی۔

کیا بی ایس او آزاد کی نئی قیادت ان چیلنجز کا ادراک رکھتی ہے اور وہ تنظیم کو آگے اسی طرح بڑھانے میں کامیاب ہونگے؟ اس حوالے سے دی بلوچستان پوسٹ نے بی ایس او آزاد کے نو منتخب سیکریٹری جنرل شاہ میر بلوچ سے گفتگو کی۔ اس بابت انکا کہنا تھا “یقیناً ہمیں بہت سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، گذشتہ دس سالوں سے تمام تر مشکلات کا سامنا کرنے کیلئے ہمارے ساتھ ہمارے سینئر فرنٹ لائن پر موجود تھے، لیکن اب ہمیں نئے دوستوں کے ساتھ فرنٹ لائن پر تمام تر سختیوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ لیکن موجودہ قیادت، بی ایس او پر ریاستی کریک ڈاؤن کے آغاز سے لیکر تنظیم پر ریاستی پابندی، چئیرمین ذاکر، چئیرمین زاہد، عزت بلوچ، لکمیر اور دیگر دوستوں کی گرفتاریاں، کمبر چاکر، رضا جہانگیر، کامریڈ شفیع و دیگر دوستوں کی شہادت جیسے سخت و بے انتہا مشکل حالات کے تجربات سے لیس ہے، ہماری تربیت ایسے ہی حالات میں ہوئی ہے لہٰذا یہ سخت حالات ہمارے لیئے نئے نہیں ہیں۔”

آپ اپنے سامنے اہم چیلنجز کیا دیکھتے ہیں؟ اس بارے میں شاہ میر کہتے ہیں “بلوچستان کی موجودہ صورتحال جہاں اظہار رائے تک پابندی عائد ہے، تعلیمی اداروں میں خوف کا ماحول ہے۔ جہاں ایک طرف ریاست حقیقی طلباء سیاست کو مکمل ممنوع قرار دے چکا ہے، وہیں اپنے پیدا گیروں کو، سیاست کے نام پر سرگرم کیا ہوا ہے، انہوں نے ریاستی ایجنڈے کے تحت طلبا و طالبات کو کمرے، سیوریج اور پانی کے مسائل میں الجھا کر ان کے تخلیقی صلاحیتوں کو ختم کرنے کے لیئے ذہنی الجھنوں کا شکار بنایا ہوا ہے۔ اس کرپٹ ماحول کو ختم کرنا، طلبا و طالبات کو بغیر کسی مذہبی، علاقائی و قبائلی تفریق کے ایک پلیٹ فارم پر از سر نو منظم کرنا اور ان میں قومی شعور کو فروغ دینا ہمارے لیئے ایک اہم چیلنج ہے۔ ریاست نے طلباء اور سیاست کے درمیان خلاء پیدا کرنے کے لیئے بی ایس او آزاد پر پابندی عائد کیا ہے۔ گذشتہ دس سالوں سے بی ایس او آزاد کے کارکنان کو کتابیں رکھنے، اسٹیڈی سرکل منعقد کرنے، تعلیمی اداروں میں سیاسی و تربیتی ماحول پیدا کرنے کے جرم میں ماروائے عدالت گرفتار کرکے ان کو اپنے بدنام زمانہ خفیہ جیلوں میں قید کیا جارہا ہے اور ہمارے گرفتار ساتھیوں کی مسخ شدہ لاشوں کو پھینکا جارہا ہے۔ بلوچستان کے ان سخت حالات میں حقیقی طلباء سیاست کے ماحول کو بحال کرنا اور تنظیم کو بلوچستان بھر ری آرگنائز کرنا ہمارے لیئے چیلنج ہے لیکن ہم سمجھتے بی ایس او آزاد ایک نظریاتی درسگاہ ہے، یہ تنظیم ان مصائب کو عبور کرنے کی صلاحیت سے لیس ہے۔ ہم بہترین حکمت عملی کے تحت اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہونگے۔”

بلوچ سماج کے سیاسی افق پر بی ایس او ایک ناگزیر سیاسی قوت کی حیثیت اختیار کرچکا ہے، اس کے بغیر سیاست کا تصور نہیں کیا جاسکتا، یہ تنظیم محض تعلیمی اداروں تک محدود ایک جماعت نہیں رہی ہے بلکہ بلوچستان میں کئی تحریکات کا موجب بنی ہے، آزادی پسند رہے ہوں یا پارلیمینٹیرینز بیسیوں رہنما بی ایس او کے ہی صفوں سے نکلے ہیں۔ لہٰذا بلوچ سیاست میں دلچسپی رکھنے والے کسی بھی فرد کیلئے بی ایس او ہمیشہ سے ہی سب سے اہم موضوع رہا ہے۔ بی ایس او نے مختلف ادوار میں مختلف سیاسی پالیسیاں اور کردار اپنا کر آگے بڑھا ہے اور اس میں تبدیلیاں آتی رہیں ہیں۔

اب بی ایس او آزاد میں کامیاب انتقال قیادت کے بعد نئی پالیسیاں اور ترجیحات کیا ہونگی یا کیا ہونی چاہیئے؟ اس حوالے سے دی بلوچستان پوسٹ نے بی ایس او آزاد کے سابق وائس چیئرمین کمال بلوچ سے بات کی اور انکی رائے لی “کامیاب کونسل سیشن کے بعد بی ایس او کی نئی قیادت سیت تمام کارکنوں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہو تی ہے کہ وہ اس پرآشوب دور میں اپنے کندھوں پر جو بڑی ذمہ داری لے چکے ہیں، انہیں جاننا چاہیئے کہ وہ کیا ہے؟ یہ ایک انتہائی اہم سوال ہے کیونکہ بی ایس او کے قیام سے لیکر آج تک ہم سے بہت سی غلطیاں سرزد ہو ئیں ہیں، بی ایس او بلوچ قومی تحریک میں ایک اہم پلیئر ہے، جو ہمہ وقت ہر اوّل دستے کا کردارادا  کرتارہا ہے۔ نئی قیادت کو سب سے پہلے تنظیم کے حدود و قیود کا تعین کرنا چاہیئے کہ وہ کیا کچھ کرسکتے ہیں اور وہ اس جد ید دور کے جد ید تقاضوں کو سمجھیں، وقت و حالات پر گہری نگاہ رکھیں۔ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے کیڈرز میں سیاسی، معاشی، سماجی اور علمی شعور اجاگر کریں، ایسا تنقیدی تعلیم عام کریں، جہاں کیڈر دوسروں کو سن سکیں اور خود دوسروں کو برداشت کر سکیں۔” کمال بلوچ کا کہنا تھا۔

سابق وائس چیئرمین پر امید ہیں کہ بی ایس او کی نئی قیادت نا صرف تنظیم کو کامیابی کے ساتھ آگے لیجاسکتی ہے بلکہ وہ باقی بلوچ قوم پرست بلوچ جماعتوں کے داخلی مسائل حل کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہے، وہ کہتے ہیں “بی ایس او کی قیادت بلوچ لیڈر شپ میں ذہنی ہم آہنگی پیدا کرنے میں بہتر کردار ادا کرسکتی ہے، کیونکہ بی ایس او کی  قیادت کبھی متنازعہ نہیں رہا ہے۔ بی ایس او کی قیادت کے ساتھ ساتھ بلوچ قیادت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بی ایس او کی قیادت کوہر طرح کی سیاسی اور اخلاقی مدد کریں تاکہ بلوچ سماج کی تشکیل نو میں بی ایس او اپنا اہم کردار ادا کرسکے۔”

کمال بلوچ گذشتہ ایک دہائی کے دوران اپنے کئی ساتھی کھو چکا ہے، اپنے ان تلخ تجربات کے پیش نظر وہ نئی قیادت کو مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ” گذشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے بی ایس او کے بہت سے نوجوان شہید اور سینکڑوں پسِ زندان کیئے جاچکے ہیں۔ نئی قیادت کا یہ ترجیحِ اولین ہونا چاہیئے کے وہ قیادت سمیت تمام کارکنان کے حفاظت کیلئے بہترین پالیسیاں اپنائے، تاکہ وہ ریاستی جبر کا حتی الامکان شکار نا بن سکیں اور بلوچ جہد کو ایک بہتر رخ کی جانب گامزن کراسکیں۔”

بلوچ سیاسی حلقوں میں بی ایس او آزاد میں تنظیمی آمریت کے بجائے، جمہوری و سیاسی عمل کے جاری رہنے اور نئے خون کو قیادت سونپنے کے عمل کو خوش آئیند سمجھا جارہا ہے۔

قریباً پانچ سالوں تک بی ایس او آزاد کے چیئرمین رہنے والے بشیر زیب بلوچ بھی اس عمل کو بی ایس او کا انقلابی روایت قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے دی بلوچستان پوسٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “یہ پہلا موقع نہیں کہ بی ایس او نے مصائب و آلام میں کامیاب قومی کونسل سیشن کا انعقاد کیا ہے، تاریخ پر نظر دوڑائیں تو جس دور میں بھی ریاست نے بی ایس او پر کریک ڈاون اور پابندیوں کا آغاز کیا، تو بی ایس او اپنے جمہوری اور انقلابی پروگرام سے دستبردار نہیں ہوا، 80 کی دہائی میں جنرل ضیاء کی آمریت کے دور میں بھی بی ایس او اپنا قومی کونسل سیسشن بولان پیرغائب کے مقام پر خفیہ طور پر منعقد کرتا ہے۔ آج ایک بار پھر بی ایس او کے انقلابی دوست، انہی انقلابی روایات کو ذندہ رکھ کر اپنا پروگرام آگے بڑھا رہے ہیں۔”

بی ایس او کے سابق چیئرمین کہتے ہیں کہ نئی قیادت کو انکا مشورہ ہے کہ “وہ غیرروایتی انداز میں نمود نمائش، پارلیمانی طرز سیاست اور سستی شہرت سے ہٹ کر خفیہ و انقلابی طریقے سے ان حالات میں بھی اپنے سیاسی علمی اور انقلابی پروگراموں کو آگے بڑھاتے ہوئے بلوچ قوم میں شعورو علم اور آگاہی کو پھلائینگے۔ وہ زیادہ تر توجہ ذہنی تربیت اور کیڈر سازی پر مرکوز کرینگے۔”

” بسا اوقات یہ بات نا قابلِ یقین لگتی ہے کہ ایک طلبہ تنظیم جسکی آدھے سے زائد کارکنان ابھی تک قانونی سنِ بلوغت کو نہیں پہنچے ہیں، تین بار اس تنظیم کے اعلیٰ قیادت کا صفایا کیا جاتا ہے، دس سال تک پوری ریاستی مشینری انکے خلاف استعمال ہوتی ہے لیکن پھر بھی نا صرف ابتک وہ وجود رکھتے ہیں بلکہ اس حد تک اثر رکھتے ہیں کہ کونسلران جمع کرکے تنظیمی الیکشن کرواتے ہیں۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حقیقی ادارے اور جمہوری تنظیم میں کتنی قوت ہوتی ہے۔” بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے لیکچرار نے دی بلوچستان پوسٹ کو نام ظاھر نا کرنے کے شرط پر بتایا۔