کوئٹہ میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے پریس کانفرنس میں کہا کہ 2018 کے انتخابات میں بلوچستان کے عوام نے جس طرح بی این پی کے امیدوراوں کی حمایت کی ہے اس پر انکے مشکور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو مینڈیٹ ہمیں عوام نے دیا اس نے ہمیں 1970 کی یاد دلوائی، لیکن عوامی مینڈیٹ اور نتائج مختلف ہیں۔
بی این پی کے سربراہ نے کہا کہ حالیہ انتخابات میں نتائیج کو روکا گیا اور نتائج 72 گھنٹے تک تاخیر کا شکار رہے، حالانکہ ماضی میں موصلاتی نظام نہ ہونے کے باوجود بھی نتائج میں اتنی تاخیر نہیں ہوتی تھی۔ایسے تاخیری حربے انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشان ہیں۔
سردار اختر مینگل نے کہا کہ ہمارے 6 قومی اور 6 صوبائی حلقوں پر عوامی مینڈیٹ کو چرایا گیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ تحقیات کے لئے کمیشن قائم کیا جائے جو تمام محرکات کو سامنے لائے۔
اختر مینگل نے پریس کانفرنس میں مزید کہا کہ نتائج میں تبدیلی بی این پی کو حکومت سازی سے روکنے کی سازش ہے، انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ ہمیں مبارک باد دینے آئے اور کچھ مبارک باد لینے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت سازی میں بی این پی کی ترجیحات بلوچستان کے جملہ مسائل ہیں، ہم اپنی حکومت بنائیں یا کسی کے ساتھ اتحاد کریں ہماری ترجیحات میں لاپتہ افراد کی بازیابی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے وسائل پے بلوچستان کے عوام کی حق ملکیت کو تسلیم کی جائے۔
اختر مینگل نے کہا کہ پی پی پی اور پی ٹی آئی نے بات چیت کی دعوت دی ہے۔
انہوں نے الیکشن کمیشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ الیکش کمیشن ووٹر کو گائیڈ کرنے میں ناکام نظر آرہا تھا۔
اختر مینگل نے مزید کہا وزرات اعلی ہمارا حق ہے، ملا تو ٹھیک ورنہ بھیک نہیں مانگیں گے، اور انہوں نے کہا کہ ہم ناامید کبھی نہیں ہوئے ہیں، اتحادیوں سے ہماری بات چیت جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے صوبائی یا قومی اسمبلی میں جانے سے متعلق فیصلہ پارٹی کی مشاورت سے کریں گے۔