رویوں کو بدلنا ہوگا
تحریر: عبدالواجد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کہتے ہیں کہ انسان کے سماجی رویوں میں آنے والے تغیرات اس کے اردگرد کے ماحول سے دوطرفہ تعلق رکھتے ہیں، یہ ماحول کا اثر قبول بھی کرتے ہیں اور ماحول کو متاثر بھی کرتے ہیں۔ معاشروں کی خوشحال اور زوال کے اسباب بھی رویوں میں پنہاں ہوتے ہیں۔ مثبت رویوں سے مثبت تبدیلی آتی ہے، تو منفی رویوں سے معاشرے کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ نوجوان خواہ وہ کسی بھی مکتبہِ فکر سے تعلق رکھتے ہوں وہ ہمیشہ سکڑتے معاشروں سے بغاوت کیوں اختیار کرتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کا تعلق بنیادی طور پر رویوں کے اونچ نیچ سے ہے، کیونکہ رویہ وہ شئے ہیں، جسے مثبت بنایا جائے، تو ہمیشہ کامیابیاں ملتی ہیں، اگر انہی رویوں کو منفی کرکے معاشرے میں بسے افراد پر مسلط کرنے کی کوشش کی جائے تو تباہی کے آثار نمایاں ہونگے، جس سے معاشرے کی ہر ستون پر لرزاں طاری ہونے کا قوی امکان ظاہر ہونے کا خدشہ ہوسکتا ہے.
آج بلوچ قومی تحریک پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو ہر ایک سیاسی کارکن کو اس امر کا ادراک ہے کہ “رویہ” ہی وہ عنصر ہے جس سے روز بہ روز بے چینی کی کیفیت میں اضافہ ہورہا ہے. ہاں یہ حقیقت ہے کہ رواں تحریک میں حوصلہ افزا ماحول بھی ہے، لیکن اس بات پر توجہ مرکوز رکھنے کی اشد ضرورت ہے کہ منفی رجحانات کا وقوع پذیر ہونے کا اصل سبب کیا ہے؟ تو یقیناً جواب یہی ہوگا کہ “رویہ” ہی وہ سبب ہے، جس سے چاہ کر بھی دوریاں کم نہیں ہورہے، کہتے ہیں کہ جس معاشرے میں قول و فعل کا تضاد نمایاں ہو، تو وہاں رویوں کے اندر منفی رجحان قوی ہی ہوگا اور جس معاشرے میں قول و فعل پر مساوی انداز اپنایا گیا ہو، انتہاء درجے کی کمزوریوں کوتاہیوں کے باوجود وہ معاشرے منزل تک پہنچ جاتی ہیں.
بلوچ سیاسی ماحول میں نوجوان نسل انتشار ذہنی کا شکار ہے، تو اس کی بڑی وجہ ہمارے زندگی سے متعلق تلخ تجربات اور ہمیں پڑھایا گیا بے رحمی اور نفرت کا وہ سبق ہے جسے جذب کرکے ہم یہ منفی ردعمل ظاہر کر رہے ہیں اور وہ ردعمل یقیناً شدید ہی ہے، جیسے چیزیں بنتی ہیں اور بکھرنے میں دیر نہیں لگاتیں. جدوجہد جب قومی مجموعی بنیاد پر ہے، تو ہم انفرادیت کو کیوں بڑھاوا دینے میں مصروف ہیں؟ ہمارے معاشرے میں انفرادیت کے فروغ نے بھی یہ انتشار پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے.
آج اگر ہمارے رویوں میں تلخی ہے، ہمارے کردار میں بگاڑ پیدا ہوا ہے، ہماری نوجوان نسل انتشار ذہنی کا شکار ہے، تو اس کی بڑی وجہ انفرادیت ہی ہے جب قومی ہم آہنگی پر انفرادیت کا سایہ اثر کرے تو رویوں میں منفی رجحان زیادہ ہوگا ہی لیکن سوال یہ ہے کہ ان منفی رویوں کا قلعہ قمع کب ہوگا؟ اگر کوئی اچھا کام بھی کر رہا ہے، تو ہم ذاتی رنجش یا شخصی اختلاف کی بناء پر اسے پوری دنیا کے سامنے چھوٹا ثابت کرنے کے لیئے کوشاں رہتے ہیں۔ ہم یہی چاہتے ہیں کہ کسی طرح اسے سب کے سامنے برا بنا دیں اور اس مقصد کے لیئے زمین آسمان ایک کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ ہمارے سامنے کسی کی اچھائی بھی کی جائے تو ہم برا مناتے ہیں اور اسے رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کی بجائے دوسرے کو غلط ثابت کرنے میں زیادہ جان لگاتے ہیں۔ پھر دلائل نہ ہونے کی صورت میں کہتے ہیں کہ بس اس موضوع کو چھوڑ دیجئے اس پر کسی اور وقت بات کرتے ہیں۔
ہم اپنے بچوں اور آنے والی نسل کو بھی مثبت رویوں کے ساتھ نہیں دیکھ سکتے، ہمارا منفی کردار ان کی سوچ پر غالب آجاتا ہے اور یوں وہ پوری دنیا کو گھٹیا، نکما، نالائق اور لائق نفرت سمجھ لیتے ہیں۔ یہی سوچ ان کے اچھے کردار کو زائل کر دیتی ہے. بلوچ سیاسی معاشرے میں رویوں میں تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے، اگر رویوں میں تبدیلی نا لائی گئی تو یقین مانیں بربادی کے سوا کچھ ہمارے ہاتھ نہیں آئے گا، آج بلوچ سیاسی ادبی معاشرے کو مثبت عمل اور مثبت سوچ کی ضرورت ہے۔ اگر کسی میں ایک خامی ہے تو اس میں دس خوبیاں بھی ہوتی ہیں، ان خوبیوں کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، مگر ہمارا یہ عالم ہے کہ ہم نے فتووں کا کارخانہ لگا رکھا ہے اور ہم ہر شخص کو کسی نہ کسی بنیاد پر رد کرنے میں لگے ہوئے ہیں جس سے نزدیکیاں تو دور آئے روز تعلقات میں دراڑیں بننا شروع ہوچکی ہیں۔