خاران، تپتا ریگستان اور شہید باری – جلال بلوچ

728

خاران، تپتا ریگستان اور شہید باری

تحریر: جلال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

تحریکی اتار چڑھاو دنیا میں ہر چھوٹے بڑے تحریکوں میں ہوتا آرہا ہے۔ بلکل تحریکیں بھی اسی تسلسل اور مستقل مزاجی کے تحت چلتے ہیں۔ تحریکوں میں ہر طبقے کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ جن میں کوئی اونچ، نیچ، ذات،پات، دین و دھرم نہیں ہوتا، کیوںکہ انقلابی تحریکوں کا بنیادی نقطہ نظر ہی برابری و مساوات کا ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص یا گروہ اس میں اس چیز کی تمیز سے واقفیت نہیں رکھتا ہے، تو یقیناً وہ لوگ انفرادیت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں۔ ان سے کسی خاص مقصد کے بارے میں امید رکھنا خود لفظ “امید” سے دھوکا بازی کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔

شیخ سعدی کا ایک نایاب قول ہے کہ، کسی آزمائے ہوئے کو بار بار مت آزماؤ ۔ کیونکہ وہ ایک دفعہ آزمانے کے امتحان میں فیل ہوچکا ہے۔ مگر اسی قول کو نہ مانتے ہوئے، شہید باری بلوچ ایک بار مجبوریوں اور خاندانی پریشر کی وجہ سرنڈر ڈرامے میں شامل تو ہوئے تھے۔ لیکن ایک پختہ شعوری سوچ نے قطعاً یہ برداشت ہونے نہیں دیا کہ دشمن کے ساتھ مزید چلا جاسکے۔ اس پختہ شعوری کی وجہ سے ایک بار پھر بلوچ قومی دھارے میں شامل ہوئے۔

اس بار وہ دشمن کیلئے دل میں نفرت کا پہاڑ لیکر آئے تھے، جنگ کے پہلے حصے میں جذباتیت تھا، کوئی خاص شعور، کوئی خاص فکری پختگی نہیں، سوائے کچھ جذباتی رجحانات کے، جس کی وجہ سے ایک جھٹکے میں کچھ دوست، بلوچ قومی جدوجہد کو چھوڑ کر پاکستانی لعنت کو گلے لگانے پر مجبور ہوگئے تھے۔

مگر اس بار شہید باری فکر و نظریے کے اصل معنی سے واقف ہوچکا تھا، جو ہر قدم پر دوستوں کے ہمراہ ہر چھوٹے بڑے کام کیلئے تیار رہتا تھا۔ یقیناً وہ ضرور اپنے پچھلے تجربے سے کچھ نہ کچھ سیکھ چکا تھا، وہ یہ کہ دشمن کو پہلے سے بہت زیادہ نزدیکی دیکھ کر ہر کمزوری کو جاننے، پرکھنے کا ہنر جان چکا تھا۔

زندگی میں آپ کو قریب سے دیکھنے کا تو موقع نہیں ملا تھا، اس بات کا ملال ضرور رہے گا۔ مگر آپ سے ایک دفعہ ضرور ملا تھا۔ جب شہر سے کسی کام کے سلسلے میں واپس وتاخ کی طرف آرہے تھے۔ دریا بڈو میں دو نوجوانوں کو نکر پہنے مچھلی پکڑتے دیکھا، تو دوست کو رکنے کو کہا، وہاں پہنچنے پر پتہ چلا کہ یہ دوست بی ایل ایف کے دوست ہیں۔ شکلیں دیکھتے ہی پہچان چکا تھا کہ ان دو دوستوں کو پہلے بھی دیکھ چکا ہوں۔ رازداری کی وجہ سے نام نہیں پوچھ سکا اور پہلے سے نام جاننے کا موقع بھی نہیں ملا تھا۔

شکار کے مچھلیوں سے ایک دو سیخ ہمیں کھانےکیلئے پیش کیا، جو ہم اپنے ساتھ لیکر رخصت کر کے چل دیئے۔ اس کے بعد آپ سے کبھی ملاقات کا موقع تو نہیں ملا، ہاں آپ سے ملنے کی خواہش ضرور رکھتا تھا۔

زندگی میں دوسرے موقع کے فلسفے کو میں بہت اہمیت دیتا ہوں، کیوںکہ انسان کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی جگہ پر پہلی دفعہ ضرور کوئی عمل کرنے میں نا سمجھی کر بیٹھتا ہے۔ ہاں ایک خاص مقصد یعنی جدوجہد آزادی کے اصولوں سے دغابازی پر یقیناً میں بھی اس فلسفے کو رد کرسکتا ہوں، اور رد بھی کیا تھا اور دل میں نفرت بھی رکھتا تھا۔ مگر آج اس فلسفے کو دل و دماغ سے تسلم کر رہا ہوں کہ زندگی میں دوسرے چانس کی اہمیت کو ہر ذی شعور انسان کو سمجھنے میں دیر نہیں کرنا چاہیئے۔

وہ اس لیئے کہ آپ جیسے کئی دوست سرنڈر ڈرامے کو ایک مجبوری سمجھ کر واپس بلوچ جہد آزادی میں شامل ہوچکے، ہاں ان پر ضرور پہلے کے نسبت بھروسے کا فقدان ہوگا۔ مگر آپ جیسے دوستوں کی شہادت اور مخلصی ایسے بڑے غلطیوں کو بھی درگذر کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔

خاران کی تپتی ریگستان پر پڑی شہید باری بلوچ کی لاش جو یہ باور کراتا ہے، دنیا کے ان قوتوں کو جو دوسروں پر قابض ہیں کہ ہم اپنے سر زمیں کا سودا کسی غیر کے ہاتھوں نہیں مانتے، ضرور پاکستانی فوج ہم سے دگنا طاقتور ہے، لیکن ہم اپنے وطن کی دفاع کی خاطر دو تین قطرہ خون تو بہا سکتے ہیں۔

شہید باری بلوچ اور شہید شکراللہ بلوچ کی شہادت یقیناً دشمن پاکستان کے منہ پر طمانچہ کھانے کے مترادف ہوگا، کیوںکہ یہ وہی لوگ ہیں، جن کو مجبور کرکے سرنڈر ڈرامہ میں شامل کیا گیا تھا۔ سرمچاروں کے ٹھکانے دکھانے پر ہر چیز کی بھی آفر ہوتا ہے۔ مگر ان سب چیزوں کو لات مار کر وہی لوگ دشمن کا کمر توڑ کر بلوچ جہدوجہد آزادی میں شامل ہوکر دشمن کی نیند حرام کردیتے ہیں۔