عدالت نے خفیہ اداروں اور فورسز کی ایماء پر لاپتہ افراد کے کیسز کو مسترد کردیا تھا: لواحقین
بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین نے جسٹس شوکت صدیقی کے تقریر کو حقیقت پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا ہیکہ پاکستان کی انصافی نظام پر آئی ایس آئی اور ایم آئی سمیت دیگر ریاستی اداروں کا مکمل کنٹرول اور قبضہ ہے، لاپتہ افراد کے کیسز میں بھی خفیہ ادارے کھل کر مداخلت کرتے چلے آرہے ہیں اور اپنے مرضی اور اپنے منظور نظر ججوں پر مشتمل بینچ بناکر کیسز پر اثر انداز ہوتے ہیں جبکہ کمیشن میں بھی مداخلت کرتے ہے جس وجہ سے کمیشن اور سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کیسز سُننے والے بینچ نے ریاستی اداروں کی ایما پر سینکڑوں لاپتہ بلوچوں کے کیسز کو بلاجواز خارج کرکے ایم آئی، آئی ایس آئی اور ایف سی سمیت اغواء اور مسخ شدہ لاشوں میں ملوث دیگر تمام اداروں اور فورسز کو کلین چٹ دے دی جس سے انصاف اور پاکستان کے عدالتی نظام کا اصل چہرہ واضح ہوتا ہے کہ وہ آزاد نہیں بلکہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز نے عدلیہ کی آزادی اور خودمختیاری کو خفیہ اداروں کے ہاں گروی رکھا ہے ۔
لواحقین کا کہنا ہے کہ تمام عدالتی فیصلے خفیہ ادارے تیار کرکے عدالت بھیجتے ہے اور عدالت و ججز اُن فیصلوں پر من و عن عملدرآمد کرکے وہ صرف صادر کئے گئے فیصلے عدالت میں پڑھ کر سُناتے ہیں۔ خفیہ اداروں اور ایف سی کے مداخلت و ایما پر عدالت اور کمیشن نے زاکر مجید، سعد اللہ بلوچ، کبیر بلوچ، مشتاق بلوچ، عطاء اللہ بلوچ، غفور بلوچ، سمیت دیگر سینکڑوں لاپتہ نوجوانوں کے کیسز کو نامکمل قرار دے کر خارج کردیا تھا۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ جسٹس شوکت صدیقی نے ججز اور عدالتوں کے چہرے سے نقاب اُتار کر اُن کے اصل و مکروہ چہرے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے۔ پاکستان میں عدلیہ، میڈیا، سیاست دان سمیت دیگر تمام ادارے فوج و خفیہ اداروں کے رحم و کرم پر ہیں جس کی وجہ سے یہ نام نہاد ادارے بلوچستان میں ہونے والی مظالم و ریاستی بربریت کو چھپا کر فوج اور ایجنسیوں کے انسانیت سوز مظالم، بلوچ نسل کشی سمیت دیگر وحشیانہ اقدامات پر پردہ پوشی کرتے ہیں۔
لواحقین نےاپیل کر تے ہوئے کہا ہے کہ عالمی عدالت انصاف، اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں جسٹس کے بیان کا نوٹس لے کر پاکستانی فوج و خفیہ اداروں کے بلوچستان میں جاری مظالم کا نوٹس لیتے ہوئے اُن پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا کیس چلائیں اور تمام لاپتہ بلوچ نوجوانوں کے بازیابی کے لئے اقدامات اُٹھائیں۔