سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے کہا کہ مجھے باپ پارٹی کو سپورٹ کرنے کا کہا گیا ،نہ ماننے پرجنہوں نے باپ پارٹی بنائی انہوں نے میرے ہی بھائی کو میرے خلاف لاکھڑا کیا۔
سابق وزیراعلیٰ بلوچستان چیف آف سراوان نواب محمد اسلم رئیسانی نے انکشاف کیا ہے کہ باپ پارٹی لانچ کرنے والوں نے ہی ان کے چھوٹے بھائی سراج رئیسانی کو ان کے خلاف انتخابات میں لاکھڑا کیاہے ۔
مستونگ میں اپنی انتخابی مہم کے دوران نواب اسلم رئیسانی کا کہنا تھا کہ سراج رئیسانی کو باپ پارٹی بنانے والوں نے میرے مد مقابل کھڑا کیا ہے اور مجھے یہ پیشکش بھی کی کہ اگر باپ پارٹی کے ساتھ تعاون کروں تو سراج رئیسانی کو دستبردار کرادیں گے لیکن میں نے انکار کردیااور کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ ہم نےاپنے سیاسی اتحادیوں کو کمٹمنٹ دی ہے جس پر ہم قائم رہیں گے۔
نواب اسلم رئیسانی کا کہناتھا کہ بلوچستان میں فیڈریشن کی سیاست کرنےوالے اب کوئی باقی نہیں رہا ، فیڈریشن کی بات کرنےوالے اب صرف باپ، ما ں ، انکل اور آنٹی والے ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی میں رہتے ہوئے ہمیشہ 23 مارچ 1940 کی قرارداد کے تحت صوبوں کوخود مختاری دینے کا مطالبہ کیا اور آج بھی اس پر قائم ہوں،یہ قرارداد پاکستان کی تشکیل کی دستاویز ہے جو وفاقی اکائیوں کو خود مختاری کا حق دیتا ہے،اس پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ انارکی ، عدم استحکام اور عسکریت پسندی کی صورت میں آیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ستر سالوں سے ایک جدوجہد چل رہی ہے ،حق حکمرانی کی جدوجہد بلوچستان کے لوگوں کی فکر اور سوچ میں ہے ، ہم کمزور صحیح لیکن بات کرنے اور سیاسی جدوجہد سے کوئی نہیں روک سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے ساتھ اتحاد اس لئے کیا کہ ان کے ساتھ ہماری ایک سیاسی ہم آہنگی ہے،ہمارا ایک ہی جیسا سیاسی مقصد ہے جس کو حاصل کرنے کی جدوجہد میں ہم مصروف ہیں۔
نواب اسلم رئیسانی کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور آصف زرداری سے اختلافات اور دوریوں کی وجہ لاپتہ افراد ،گوادر پورٹ اور ریکوڈک جیسے مسائل تھے۔
لاپتہ افراد پر ہم نےصدر زرداری، وزیراعظم، اس وقت کےآرمی چیف، آئی ایس آئی ، ایم آئی کے سربراہان سے کئی ملاقاتیں کیں مگر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی، اسی طرح ریکوڈک کے مسئلے پر میرا واضح مؤقف تھا کہ یہ بلوچوں کی ملکیت ہے اسے ہم ٹھیتیان کمپنی کو ایسے ہی لے جانے کی اجازت نہیں دے سکتے،ہم نے پرویز مشرف کی جانب سے سنگاپور پورٹ اتھارٹی کے ساتھ گوادر پورٹ کا معاہدہ منسوخ کرکے عقیل ڈھیڈی اور این ایل سی کو الاٹ کی گئی زمین واپس لی ،ہم چاہتے ہیں کہ گوادر پورٹ اور سی پیک سے متعلق فیصلوں میں پارلیمنٹ میں موجود بلوچستان کے نمائندوں کی رائے کو اہمیت دی جائے۔
سابق وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور نیشنل پارٹی سے اس بات پر ہی اختلاف تھا کہ انہوں نے گوادر کے سرمائی دار الحکومت کے نوٹیفکیشن پر عمل درآمد نہیں کیا، بلوچوں، پشتونوں اور دیگر لوگوں کی مرضی کے بغیر ان کے وسائل اور علاقوں کے فیصلوں کا منفی رد عمل ہوگا