کھلا خط جان محمد دشتی کے نام – برزکوہی

727

کھلا خط جان محمد دشتی کے نام

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

محترم جان محمد دشتی صاحب!
فکر آزادی کو لیکر فکری تضاد کے تناظر میں آپ سے اختلاف اپنی جگہ لیکن آپکے ادبی و علمی اور صحافتی خدمات کو ہمیشہ ہم نے ہر جگہ سراہا ہے۔ لیکن جناب آپ کی پاکستانی پارلیمانی الیکشن میں باقاعدہ حصہ لینے نے حیرت میں ڈالدیا ہے۔ خیر، اتنی حیرت بھی نہیں کیونکہ آپ کا جس پارٹی اور اشخاص سے تعلق ہے، وہ تو شروع دن سے ہی بلوچ و بلوچستان اور بلوچ شہیدوں کا نام لیکر پاکستانی پارلیمنٹ کو اپنا نظریہ، فکر، منزل اور مقصد مانتے ہیں اور آج بھی مان رہے ہیں۔

لیکن جناب آپ تو پہلے اکثر اپنی نجی محفلوں میں، حتیٰ کے میرے سامنے بھی، ایک بار نہیں بلکہ بار بار کئی نشستوں میں پارٹی قیادت اور پارٹی پالیسیوں پر پارٹی سے وابستہ ہونے کے باوجود اسے علمی بنیادوں پر کڑی تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ خاص طور پر پارٹی کے، پاکستانی پارلیمنٹ میں حصہ داری اور شراکت داری کے عمل کو حدفِ تنقید بناتے رہے ہیں لیکن آج آپ خود اسی بدبودار مچھلی بازار کا ناصرف حصہ بن گئے ہیں اور ساجھے داری پر اتر آئے ہیں بلکہ دوسری طرف گذشتہ دنوں آپ کا ایک منطق سے عاری روایتی اخباری بیان نظروں سے گذرا جہاں آپ اس سعی لاحاصل کا دفاع بھی کررہے تھے۔

جناب! پھر کیا آپ اور آپ کے اس وقت کی تمام باتیں غلط تھیں یا پھر آپ اس وقت ماحول سے اثر انداذ ہو گئے تھے؟ یا پھر آپ کیفیت کے طلسم کے جس سحر میں مبتلا تھے، وہ شعور کے بجائے رنگوں میں رنگ جانے کا ہنر تھا؟ جس طرح آپ پارلیمانی سیاست میں حصہ لیتے ہوئے اخباری بیان میں اپنے اس گناہ کے حق میں کمزور سا ایک دلیل بھی پیش کرنے کوشش کرتے ہیں۔ کیا وہ کمزور دلیل خود آپ کے پائے کے ” دانشور” اور علم و ادب کی نفی نہیں کرتا ہے؟ اور ساتھ ساتھ اخباری بیان میں آپ کے نام میں دولفظوں کا جو اضافہ ہے، مجھے وہ انتساب نا اب نا انصافی اور ان الفاظ کی روح کو ٹھیس پہنچانے کی مانند محسوس ہوتے ہیں، یعنی آپکے نام کے ساتھ بلوچ ادیب اور بلوچ دانشور کا لاحقہ، اب ادیب و دانشور کا معیار تعریف اور تشریح کا پیمانہ کیا ہے؟ پیمانہ کرنے والوں کی ادب اور دانش کی سطح کیا ہے؟ وہ اپنی جگہ ایک الگ بحث ہے۔

جناب! لیکن میں ایک بات پر سوفیصد پہلے سے ہی بغیر شک و شبہ اور الجھن کے سوفیصد کلیئر تھا اور آپ نے اسے مزید واضح اور میرے موقف کی تصدیق و تائید کردی کہ علم و دانش جتنا بھی وسیع کیوں نہ ہو، آپ ہزاروں کتابوں کا مطالعے سے سرخرو کیوں نا رہے ہوں اور سینکڑوں کتابوں کے مصنف کیوں نا ہو، بھلے آپ مختلف سیاسی، علمی اور ادبی موضوعات پر مفصل لیکچر بحث مباحثے کے ماہر ہو لیکن جب تک آپ ان علمی باتوں، کتابوں اور موضوعات پر خود ایمانداری سے عمل نہیں کرتے، تو گفتارو کردار کے تضاد کے تناظر کو لیکر آپ کے تمام اعمال خالی خولی علم و علوم کچرے کے ڈھیر کے سوا اور کچھ نہیں، بغیر عمل کے آپ کا علم ڈھول کی طرح ہوتا ہے، دور تک اس کی آواز سنائی دیتی ہے لیکن اندار سے خود ڈھول خالی ہوتا ہے۔ آپ کا علم بغیر عمل کے، اس پانی کی مانند ہوتا ہے، جو ضرور گہرا اور پھیلا ہوتا ہے لیکن ایک جگہ پر رکا ہوا اور بدبودار ہوتا ہے۔ آپ کا علم بغیر عمل کے وہ گاڑی ہے، جس میں شروع سے پٹرول کی ٹینکی کی کوئی جگہ ہی نہ ہو۔ آپ کا علم بغیر عمل کے وہ کرسی جس کے چاروں ٹانگیں ٹوٹے ہوں اور علم بغیر عمل کی جہالت کی بدترین شکل ہے۔

جاہل انسان، اپنے مرضی کے بغیر جاہل ہوتا ہے اور علمی انسان اپنے ہی علم اور دانش سے روگردانی کرکے بے عمل ہوکر دانستہ اور شعوری بنیادی پر اپنی لیئے خود جہالت کے سفر کا تعین کرتا ہے، اس سے بدترین جہالت اور کیا ہوسکتی ہے؟ ایسے لوگوں کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ تو پڑھا لکھا اور دانشور بندہ ہے وہ کیوں ایسا کرتا ہے یا کررہا ہے؟ میرے خیال میں ایسے آراء اور جملوں کا استعمال کرنا خود دانش، علم، ادب اور عظیم دانشوروں اور ادباء کی روح کو خنجر مارکر پھر ان کی بے دردی سے بے عزتی اور گستاخی کرنے کے مترادف ہوگا۔

علم و مطالعہ، جب بھی اور ذرہ برابر بھی عمل سے دور ہوگا، تو وہ علم صرف معلومات کی حد تک، سستی شہرت کی حد تک اور ذریعہ معاش، انفرادی مفاد، حاصل کرنے کی حد تک اور حرص و لالچ اورذاتی خواہشوں کو پورا کرنے کی حد تک ضرور مفید اور کارگر ثابت ہوگا لیکن علم و شعور پھیلانے اور لوگوں کو متاثر کرنے کی لائق نہیں ہوگا۔ دنیا میں بے شمار انسان علم و دانش تو رکھتے تھے لیکن کیوں چند انسان آج تک تاریخ میں نمایاں اور تا ابد ذندہ ہیں؟ اپنی علم اور دانش کے بدولت؟ صرف اور صرف علم کے ساتھ ساتھ عمل پر مکمل عمل نے ہی ان انسانوں کو عظیم سے عظیم تر بنا دیا۔

انسانی تاریخ یہ ثابت کرتا ہے کہ جب علم و دانش عمل سے منہ موڑ لے، تو پھر انسان اپنی تمام تر تخلیقی و تحقیقی صلاحیتوں اور وجدان کو کھو بیٹھ کر جاہل درباریوں اور چاپلوسوں سے بھی زیادہ پڑھا لکھا درباری اور چاپلوس بن جاتا ہے اور آخری حد تک مکرو فریب، لالچی، جھوٹا، دغا باز اور منافق بن جاتا ہے۔ ایک کم علم اور کم عقل انسان سے کئی گنا زیادہ اس لیئے کہ اس کے پاس پھر جھوٹ منافقت اور ذاتی مفاد حاصل کرنے کیلئے علم خود ایک اچھا اور موثر ذریعہ، ہنر اور دلیل ہوتا ہے، جس کو وہ منفی شکل میں بروئےکار لاتا ہے۔

محترم دشتی صاحب! آپ نے اپنے اخباری روایتی اور غیر منطقی بیان میں کہا تھا کہ پاکستانی پارلیمنٹ سے بائیکاٹ کا فیصلہ غلط تھا۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کس نے بائیکاٹ کیا تھا؟ جناب آپ کی پارٹی نے کب پارلیمنٹ سے بائیکاٹ کیا تھا؟ کس دور میں؟ ذرا وضاحت تو کرتے، البتہ آزادی پسندوں نے تو بائیکاٹ ضرور کیا ہے اور آپ کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ یہ پاکستانی پارلیمانی سیاست کے بائیکاٹ کا سوچ و فکر اور انقلابی قدم سب سے پہلے 2002 میں بلوچ رہنما ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ نے اٹھایا، جس پر آزادی پسند آج تک قائم ہیں۔ بلکہ ڈاکٹر اللہ نظر کا یہ انقلابی سوچ اور فیصلہ دن بہ دن سال بہ سال وسعت اور شدت اختیار کررہا ہے، ایک مزاحمت کی شکل میں۔ ایک وقت تو جناب دشتی صاحب، آپ خود بھی اس سوچ سے متاثر ہوگئے تھے۔ اگر آج آپ مکر گئے ہیں تو پھر یہ اور بات ہے لیکن اس پوری سوچ اور فیصلے کو غلط کہنا کہاں کی دانشمندی ہے؟

جناب! آپ نے مزید اپنے روایتی اور غیر منطقی بیان میں یہ فرمایا تھا کہ جب ہم پارلیمنٹ نہیں جائینگے تو پھر کرپٹ اور چور لوگوں کیلئے جگہ خالی ہوگا اور وہ پارلیمنٹ پہنچینگے۔ سب سے پہلے دشتی صاحب آپ کا نقطہ نظر، پیمانہ نظر اور زوایہ نظر میں چور اور کرپٹ کا معیار، پیمانہ اور تعریف کیا ہے؟ آپ ذراہ وضاحت کرسکتے ہیں کہ کون ہیں؟ اگر بی این پی عوامی والے ہیں؟ تو پھر آپ کے قائد اخترجان مینگل کا بی این پی کے سربراہ اسرار زہری سے الیکشن کے سلسلے میں اتحاد ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کس بات کی دلیل ہے؟ اگر مولوی صاحبان کرپٹ و چور ہیں، تو پھر جھالاوان اور دوسروں جگہوں پر آپ کی پارٹی کا جمیت کے ساتھ اتحاد اور تعاون کس لیئے؟ اگر نیشل پارٹی اور شفیق مینگل والے چور اور کرپٹ ہیں تو پھر نیشنل پارٹی کے رہنما اسلم بزنجو کا شفیق مینگل سے اتحاد و ملاقات اور پھر شفیق مینگل کا بی این پی عوامی کے ظفر زہری سے اتحاد اور ملاقات اور آپ کا بھی بی این پی عوامی سے تعلق اور اتحاد اگر پی پی پی والے کرپٹ اور چور ہیں تو پھر ان کے ساتھ بھی آپ کی پارٹی کی ملاقات اور اتحاد کس بات کی دلالت کرتا ہے؟

اگر مسلم لیگ اور باپ والے چور اور کرپٹ ہیں تو پھر چند مہینے پہلے کرپٹ اور چور کے شکل میں قدوس بزنجو کو وزیراعلیٰ بنانے میں سردار اخترمینگل کی شب و روز محنتوں کو دشتی صاحب آپ کیسے اور کس طرح فراموش کرسکتے ہیں۔ جناب! اس الیکشن ڈرامے میں مزید آپ بھی دیکھیں گے اور میں بھی دیکھوں گا اور بلوچ قوم بھی دیکھے گی کہ حبیب نالے پار فرشتے آپ سے اور آپ کی پارٹی سے اقتدار کی ہوس میں کیا کیا کرواتے رپینگے۔

جناب! اس تمام گورکھ دھندے میں براہِ راست، بلاواسطہ یا بالوواسطہ آپ اور آپ کا پارٹی اور قیادت شفیق، اسرار، ثناء زہری، قدوس، مولوی، پشتون، سرفراز، پی پی پی، ڈاکٹر مالک، احسان شاہ وغیرہ وغیرہ سب کے سب ایک ساتھ آخر کار ایک جگہ ایک ہی بہتے ہوہے بدبودار گنگا میں ننگے نہا رہے ہیں اور سب کے سب کو شیمپو اور صابن نالے پار فرشتے لگا رہے ہیں۔ یہ مجھ سے زیادہ جناب آپ اچھی طرح جانتے ہو، تجربے کے لحاظ سے، اپنی آنکھوں سے سب کچھ خود دیکھنے کے لحاظ، کانوں سے سنے کے لحاظ سے آپ سب جانتے ہو۔ پھر چور اور کرپٹ لوگ کون ہیں، جو آپ جناب پاکستان کے خون آلود پارلیمنٹ میں جنکا جانا گوارہ نہیں کرتے اورخود جانا پسند کرتے ہو؟

جناب دشتی صاحب! آج آپ مکران کے تپتی دھوپ میں الیکشن مہم کے سلسلے ادھر ادھر ضرور ووٹ مانگنے کے تگ و دو کررہے ہوگے۔ تو کیا آپکو اپنے علاقے، دشت کنجتی میں اپنے قریبی رشتے دار شہید حمید جان کی قبر کو دیکھ کر پھانسی کا پھندا یاد نہیں آتا؟ پھر آپ اپنے ضمیر کو کس طرح اور کیسے مطمین کرتے ہو؟َ خون سے لت پت پورے بلوچستان میں خاص کر مکران میں قدم قدم پر جب آپ کو یتیم خانے، بیوہ خانے، ماتم کدے ہزاروں کی تعداد میں گھروں اور گدانوں کی صورت ملینگے تو وہاں جاکر آپ انہیں کیا بتائینگے؟ میں جان محمد دشتی کس لیے آیا ہوں؟ کیا مانگنے آیا ہوں؟ اور آپ لوگوں کیلئے میں کیا کروں گا؟ پاکستانی فوج نے آپ کے لخت جگروں کو شہید کیا ہے، میں آپ لوگوں کیلئے سڑک، نلکے، روزگار، ذکوٰت فنڈ اسیکم، کھمبے اور بجلی لاوں گا؟ کیا اس بجلی کی روشنی سے کسی ماں، بہن، بھائی، بیوی، باپ اور معصوم بچے کے آنکھوں کا نور واپس لوٹے گا؟

دشتی صاحب! آپ اس خون سے لت پت ریاستی جبر کے شکار، خون کے آنسو رونے والے پاکستانی ریاستی زخموں سے چکنا چور بلوچوں سے کس طرح اسی پاکستانی پارلیمنٹ میں جانے کیلئے ووٹ مانگو گے؟ کس دلیل، علم اور منطق کے تحت؟ یا پھر دھوکے جھوٹ اور منافقت کے ذریعے؟ پھر آپ ذرہ سوچو اور سنو آپ کا ضمیر آپ کو کیا کچھ نہیں کہہ رہا ہوگا؟ ضمیر کو آپ کیسے مطمین کروگے؟ اگر ضمیر ذندہ و تابندہ ہے تو۔

جناب دشتی صاحب! آپ ضرور اپنے بے عمل علم کو اور ضمیر کو ذاتی مفادات حرص اور لالچ کی بند بوریوں میں باندھ لیں۔ اور شہید حمید بلوچ اور دیگر بلوچ شہیدوں کے خون، بلوچ قوم اور بلوچستان کے نام پر جو کچھ ذاتی پراپرٹی آپ نے کمایا ہے، ان میں کچھ نہ کچھ ضرور مزید اضافہ کرلیں، لیکن یاد رکھیں، آپ جو کھو رہے ہو اور کھوتے جارہے ہو وہ تاریخ کا حصہ ہے جو آپ کی نسل در نسل کیلئے باعث شرمندگی ہوگی۔

آخر میں جناب دشتی صاحب اگر میرے یہ چند الفاظ آپ کے صحت پر گراں گذرہے ہیں تو ان کا پرواہ نہیں کرنا کیونکہ تاریخ کے الفاظ اس سے ہزار گنا سخت اور تلخ ہونگے اور بلوچ قوم اس وقت تاریخ ساز دور سے گذر رہا ہے، بلوچ کا ہر فرد تاریخ کا حصہ بن رہا ہے، آپ جناب کس کھاتے میں شمار ہونگے، مجھ سے زیادہ آپ خود جانتے ہو کیونکہ ہر انسان اپنے تاریخی کردار، وقار، مقام اور عزت کا خود تعین کرتا ہے۔ اس میں کسی اور کا نہ کبھی دخل ہوا ہے اور نہ ہوگا۔
جناب میں اپنے الفاظ کو ایلیز روزویلٹ اور گاندھی جی کے ان سنہرے الفاظ کے ساتھ ختم کرتا ہوں باقی آپ کچھ سمجھے یا نہ سمجھے وہ میرا درد سر نہیں۔

روزویلٹ کہتا ہے کہ “کوئی آپ کو، آپ کے اجازت کے بغیر تکلیف نہیں پہنچاتا ہے۔” گاندھی جی کے الفاظ ہیں کہ “وہ ہم سے ہماری عزت نہیں چھین سکتے، تاوقتیکہ ہم خود اسے ان کے حوالے نہ کریں۔” یعنی انسان کے ساتھ جو کچھ بھی ہوتا ہے، وہ ہماری مرضی، اجازت اور رضامندی سے ہوتا ہے۔