لاپتہ بلوچ اسیران و شہدا کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 3103دن مکمل ہوگئے۔ پنجگور سے تعلق رکھنے والے علی محمد بلوچ نے اپنے ساتھیوں سمیت لاپتہ افراد و شہدا کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سندھیوں، بلوچوں، پشتونوں اور ہزارہ برادری کو اظہار خیال کرنے، اپنے قومی مذہبی تہوار منانے اور کلچر رسم رواج کے مطابق زندگی گزارنے کا کوئی حق نہیں ۔
ماما بلوچ نے مزید کہا کہ میرے خیال میں مجھے اس کے لئے کوئی لمبی چوڑی مثال دینے کی کوئی ضرورت نہیں اس جملے سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں جو کہ پاکستانی زبان پر ہے بس یہ پاکستان ہے یہاں سب کچھ چلتا ہے، اس ملک پاکستان اور پنجابی قوم کی بڑی بد قسمتی ہے کہ یہاں جب کوئی بھی فرد اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرے کہ دنیا میرے قوم کے غلامی کے بارے میں متوجہ ہوجائے کہ یہ وحشی قوم اور اس کا فوج یہ ظلم و زیادتی کر رہے ہیں تو وہ نہ صرف اس کے خلاف پروپگنڈا کرتے ہیں بلکہ اس قوم کو ذلیل خوار کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ مثلا اس میں ذہنی ٹارچر جسمانی، ٹارچر، نفسیاتی ٹارچر اخلاقی ٹارچر وغیرہ کے ذرائع شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب یہاں سے بات نہ بنی تو بندوق، گولی، توپ ،کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے شکست دینے کے ہتھکنڈے زیر استعمال لاتے ہیں۔بین الاقوامی انسانی حقوق ، حقوق نسواں ،حقوق اطفال ،حقوق نوجوانان غرض تمام انسانی حقوق بھول جاتے ہیں پھر یہاں ایک بے لگام وحشی آدم خور بن کر انسانیت کی قتل عام کرتے ہیں، اگر ان باتوں پر یقین نہ ہو تو بلوچستان میں ان کی درندگی کے کارنامے تاریخ کے نظرسے دیکھیں۔