عشق کا تقاضہ – بیرگیر بلوچ

202

عشق کا تقاضہ

تحریر: بیرگیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو افسانہ

ہانی حسبِ معمول شال کی ٹھنڈی موسم میں گھر کے باہر پہاڑی کے دامن میں لکڑیاں جلا کر دیر تک پہاڑ کے چوٹی پر نظریں جمائے تکتی جا رہی تھی، وہ کچھ خیالوں میں ہی گم باتیں کر رہی تھی، جیسے کوئی ساتھ بیٹھا ہو اسے سن رہا ہو، اس سے باتیں کر رہا ہو۔

وہ شاید رات بھر ایسے ہی انگاروں کی تپش سے سردی کو مات دے کر بیٹھی رہتی اور اپنے گمنام ساتھی سے محو گفتگو شام کو سحر کرتی، مگر پاس آتے ایک موٹر سائیکل کی آواز نے اسے خیالوں سے نکال کر حقیقی دنیا میں لے آیا۔ قریب پہنچتے موٹر سائیکل سے اسکا کزن علی اور اسکے ساتھ اسکا ساتھی زوہیب اتر گئے۔ انہوں نے آتے ہی موٹر سائیکل کا لائٹ بند کردیا تھا۔ وہ گاؤں سے باہر ہانی کے گھر سے کچھ فاصلے پر ہانی سے ملنے آئے تھے، انکے ہاتھ میں کچھ رومال اور ایک بکسا تھا۔ پہلے تو وہ جلدی سے آگ کے قریب بیٹھ کر تپش سینکنے لگے۔ انکے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ چھپ چھپا کر کہیں دور سے آرہے تھے۔ تھوڑی دیر حال احوال کے بعد علی نے بکسے سے دو پسٹل نکال کر ہانی کے حوالے کردیئے۔

ہانی پسٹل رومالوں میں لپیٹ کر انہیں قریب ایک بڑے سے پتھر کے نیچے چھپا کر واپس اپنے جگے پر بیٹھ گئی۔ کچھ دیر بعد زوہیب ہانی سے مخاطب ہوتے ہوئے بولی “کل آپ 5 بجے گاڑی میں یہ سامان ہمیں چاکر روڈ پر پہنچاؤ گی، جہاں آپ سے یہ بندوق لیکر ہم آگے جائینگے۔ اسکے بعد آپ اس دفتر کے سامنے اسکول کے قریب کھڑی رہوگی، جب تک وہ افسر نہیں نکلتا، اسکے نکلتے ہی آپ ہمیں کال کرینگے اور ہمیں بتاتے ہی آپ چاکر روڈ کو کراس کرتے ہوئے، اگلے گلی میں ہوٹل کے پشت میں موجود میدان میں، ہمارے انتظار میں کھڑی رہوگی، ہم یہاں سے ٹارگٹ مکمل کرکے، آپ کی طرف نکل آئینگے، پسٹل پھر سے آپ کو دینگے اسکے بعد آپ وہاں سے اکیلی نکلوگی۔”

ہانی اس سے پہلے بھی اس طرح کاموں میں شریک رہی ہے، وہ کام کے طریقے سے بخوبی واقف تھی۔ اس نے پوری طرح حکمت عملی سن اور سمجھ کر، ان سے کل اسی جگہ ملنے کی حامی بھر لی۔

جب زوہیب اور علی اٹھ کر چلنے لگے، تب علی ہانی سے بولا “بہن اب کب تک انتظار کروگی، اسے نہیں آنا، وہ کامیاب ہوکر چلا گیا. اس نے اپنے وطن سے کیا ہوا وعدہ پورا کرلیا۔ اب آپکو اور ہمیں اسکے مشن کو آگے لیجانا ہے، بہتر ہے غم میں ڈوبنے کے بجائے، ہم کام پر مکمل توجہ دیں۔”

ہانی مسکراتے ہوئے بولنے لگی ” وہ تو روز آتا ہے، اس پہاڑی سے اتر کر مجھ سے ملنے، مجھے حوصلہ دینے، مجھے سمجھانے……….” وہ کچھ دیر خاموش رہی پھر کہنے لگی، “خیر آپ لوگ چلے جاؤ، کل کام کے لیئے میں تیار ہوں، وہیں ملینگے۔”

ہانی پھر سے آگ کے سرہانے بیٹھ گئی، پہاڑ پر پڑتی شعلوں کے عکس سے اسے یوں گماں گذرتا جیسے اسکا محبوب نثار پہاڑی سے اتر کر اسکی جانب آرہا ہے۔ یہی تو وہ چاہتی تھی، یہی اسکا انتظار تھا. وہ اپنے انہی خیالات میں گم تھی کہ کاش! وہ نثار کو آتے ہوئے دیکھ پاتی۔ وہ چشم تصور سے دیکھتی کہ کہیں نثار بندوق کاندھے پرلٹکائے اور سر پہ رومال باندھے مسکراتے ہوئے اسکی جانب دیکھتے ہوئے کسی پتھر کے قریب بیٹھے دم بھر کیلئے آرام کررہا ہے۔ وہ سوچتی، یہ بس مسلسل سفر کی تھکان ہے، وگرنہ نثار کبھی جنگ کے حالت سے نہیں تھک سکتا۔ وہ جب کبھی فون پر اس سے بات کرتا، تو آگے سے ہنستا مسکراتا نثار اپنے خیریت کا حال سناتا، اس سے خوشگوار موسم اور وطن کی ٹھنڈی ہواؤں کا ذکر کرتا۔ ڈھیرے سارے محبت بھری باتیں کرتا۔

یہ ہانی کا جذبہ محبت ہی تھا کہ وہ نثار کے آنے کے انتظار میں تھی، کیونکہ رخصتی کے وقت یہ طے ہوا تھا کہ جنگ سے لوٹ کر وہ اپنی زندگیاں ایک ساتھ گذاریں گے۔ مگر اس جنگ کی حقیقت بھی دونوں پر عیاں تھی کہ اس کی کامیابی انکے لہو کے رستے سے ہوکر گذرتی ہے۔ پچھلے پانچ سالوں سے وہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے، انہوں نے محبت کے پاک دامن کو تھامے رکھ کر ایک دوسرے کے ہمسفر بننے کا تہیہ کیا ہوا تھا۔.

ایک ہی گاؤں میں پل بڑھ کر ایک ہی مدرسے سے تعلیم حاصل کرکے، دونوں بہت قریب ہوگئے تھے۔ محبت کی چڑیا نے کب اپنے پروں کے سائے میں انہیں دامن گیر کرلیا، یہ ان دونوں تک کو بھی معلوم نہیں پڑ سکا، بس اب وہ تھے اور انکی محبت۔

رشتہ دار ہونے کے وجہ سے ایک دوسرے سے اکثر ملاقات ہوتی رہتی تھی، انکی باتوں میں دکھاوے کی محبت کبھی تھی ہی نہیں، نثار بھی ہانی سے اتنی ہی محبت کرتا تھا جتنا کہ ہانی اس سے امید رکھتی تھی۔ وہ ایک دوسرے کے ہر چھوٹی بات کو سمجھ سکتے تھے۔ نثار جب کبھی شہر جاتا، ہانی کے لیئے اسکی پسند کی چوڑیاں خرید کر لے آتا، اس نے خود کو ہر طرح سے تیار رکھا تھا ایک اچھا ہمسفر بننے کے لیئے۔
.
محبت اسکا جنون تھا، ہانی کے ساتھ رکھے برتاؤ نے اسے محبت کا مطلب سمجھایا تھا کہ جہاں محبت کا احساس زندہ ہو وہاں ذات، زندگی اور مفاد سب ہچ ہوجاتے ہیں۔ اسی محبت نے پچھلے چار سالوں سے نثار کو اپنے مادر وطن کا احساس دلایا تھا، وہ بلوچستان کے جنگ زدہ ماحول میں اپنوں کے بہتے لہو، گرتی لاشوں، سسکتی ماؤں کے درد کو محسوس کرتے ہوئے آزادی کے اس کارواں میں مکمل سوچ کے ساتھ علاقے کے باقی سرمچاروں کے ساتھ مل کر اپنے جہد کا آغاز کر چکا تھا. نثار زندگی کو تین حصوں میں بانٹ کر اپنے ہر زمہ داری کو بخوبی نبھا رہا تھا۔ ایک طرف اسکی ماں، اسکا گھر، دوسری طرف اسکا وطن تیسرا طرف ہانی۔ ان سب کو وہ یکساں محبت کے ترازو میں رکھے ہر وقت انکے ساتھ رہتا تھا۔ جس محبت کا احساس اسے ہانی کے عشق نے سکھایا تھا، وہ اسی سچائی سے وطن کے سرفروشوں کے ساتھ ہر محاذ پر دشمن کو نیست کرتا ہوا حملہ آور ہوتا رہا، وہ صبح شام سردوگرم، کسی بھی شئہ کی پروا کیئے بغیر اپنے مقصد سے جڑے ہر کام میں پیش پیش رہتا۔ اسے کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ وطن کی محبت میں کہیں فنا ہوگیا، تو ہانی یا ماں کی ممتا کو مکمل محبت کیسے دے پایگا۔ وہ بس یہ جانتا تھا کہ اسے بس وطن سے محبت ہے۔

جب وہ ہانی کے ساتھ ہوتا، تو اس سے بھی اتنی ہی محبت کے ساتھ باتیں کرتا یا گھر میں ماں کے زانوں پر سر رکھ کر گھنٹوں تک اس سے باتیں کرتا رہتا. نثار اتنا جانتا تھا کہ جب جہاں اسے موقع ملے، وہ اپنی زندگی کو اسی لمحے کے نام کردے۔ اسے کبھی خیال نہیں آتا تھا کہ ایک محبت کو دوسرے پر قربان کردیا جائے. وہ بس یہ مانتا تھا کہ محبت کے تقاضوں میں خود کو فنا کرنا ہی سچے لگن کا ثبوت ہے۔

اسنے اپنے باقی دو محبت کا اظہار اپنے مٹی کے علاوہ کسی سے نہیں کیا تھا، وہ جب کبھی نزدیکی پہاڑی پر کسی دوست کے انتظار یا اکیلے بیٹھا ہوتا، تو دیر تک وطن کی مٹی کی خوشبو کو محسوس کرتا اور پھر اس سے ہانی کے متعلق ڈھیر ساری باتیں کرتا۔ وہ کسی پتھر پر ٹیک لگا کر کہتا مجھے اپنے ماں کی گود میں سر رکھ کر بھی ایسا ہی سکون ملتا ہے، جیسا اس کھلی ہوا میں آپ کے گود میں سر رکھ کر آتا ہے. گھنٹوں تک وطن مادر کے گود میں سر رکھ کر وہ بس بولتا رہتا۔

نثار اپنے وطن سے محبت اور اس جنگ کا حصہ بننے کا ذکر کبھی بھی نہ کرتا، وہ جانتا تھا کہ راز ہی وہ شئہ ہے، جو مجھے، میرے دوستوں اور میرے تنظیم کو نقصان سے بچا سکتا ہے۔ وہ دشمن پر پے در پے حملوں میں پیش پیش رہتا۔ وہ کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔ جہاں کہیں اسے دشمن پر وار کرنے کا موقع ملتا، وہ اپنا سب کچھ کھیل، دوست، گھر، کام حتیٰ کے ہانی تک کو پرے رکھ کر، پہلے اپنے مقصد اور اپنے کام میں لگ جاتا تھا۔

وہ اس متعلق کئی بار اپنے دوست، ماں، ہانی، و باقی لوگوں سے راز داری کے بنا پر رد بات بتانے پر مجبور ہوا تھا. جب کبھی وہ کسی کام میں ہوتا تو فون پر پوچھنے والے کو اپنے موجودہ لوکیشن سے کہیں دور کسی اور جگہ ہونے کا کہتا۔ وہ ہر لمحہ خود کو و خود کے دوستوں کو ہر طرح سے محفوظ رکھنا چاہتا تھا۔

وہ لمحہ نثار کو بے حد گراں گذر رہا تھا، جب وہ ہانی سے آخری بار ملنے کی غرض سے آیا تھا، اس شام اسے شہر سے نکلنا تھا، نثار کا ایک ساتھی جو اسکے شہری گروپ کا حصہ تھا، اپنے ہی کزن کے ہاتھوں ریاست کے عقوبت خانوں تک پہنچ چکا تھا۔ اسکے بعد دشمن کے مسلسل چھاپوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ جس سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ رازداری کے متعلق کہیں لاپرواہی برتی گئی تھی. جس سے اب باقی نیٹورک کا یہاں موجود رہنا تنظیم اور باقی ساتھیوں کے لیئے خطرے سے خالی نہ تھا۔

نثار نے ہانی کے لیئے بلاوا بھیجا تھا، وہ آخری بار اس سے ملنا چاہتا تھا۔ ہانی اس طرح بلانے پر ششدرہ اور پریشان تھی، پہنچنے پر اس نے وجہ پوچھی۔ نثار نے مسکراتے ہوئے ہانی کا ہاتھ تھام کر کہنے لگا “اب اس سے آگے زندگی کا سفر دور رہ کر ہی کاٹنا پڑیگا، میں اب شہر چھوڑ کر جا رہا ہوں، اب میرا یہاں اور رہنا مناسب نہیں، مجھے وہاں جاکر اور بھی کام کرنے ہیں۔”

ہانی جھٹ سے سمجھ گئی کہ نثار کس طرف جانے یا کس وجہ سے اس طرح کے باتیں کر رہا ہے۔ ہانی کہنے لگی “مجھے نہیں معلوم تم اس راہ پر کب سے ہمگام ہو، کبھی مکمل خبر نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی اعتراض ہے۔ تمہاری محبت کی شدت بتاتی ہے کہ تم حقیقی محبت سے کس قدر واقف ہو، ہاں اتنی خواہش ہمیشہ سے رہی ہے اور رہے گی کہ کبھی دور نہ رہیں۔”.

نثار مسکراتے ہوئے ہانی کے آنکھوں سے بہتے آنسو اپنے ہاتھ سے پونچھتے ہوئے بولنے لگا “ہم دور نہیں ہیں اور نہ ہی ایسا کبھی ہو سکتا ہے اور نہ ہی کبھی یہ محبت کم ہو سکتی ہے. مگر میری وطن سے محبت، میرے وجود سے بھی زیادہ ہو چکا ہے، میں نے تم سے پہلی محبت کی مگر وطن تو میرا اور تمہارا ہے۔ میں نے اسے تمہاری اور اپنی محبت یکجا کر کے دے دیا ہے، محبت میں تم ہی نے تو سکھایا کہ اسکے تقاضوں پر پورا اترنے کے لیئے ہمیشہ تیار رہو۔ وطن کی محبت تقاضہ کررہا ہے کہ اس سے آگے رختِ سفر پہاڑوں کی جانب باندھوں۔ اب تقاضے روکنےچلے جانے پر ٹہری ہیں۔ میں یہی چاہتا ہوں اگر میں کہیں پہاڑوں میں لڑتے ہوئے، وطن کی آغوش میں ابدی نیند کیلئے لیٹ جاؤں تو میرے بعد تم اس کام کو آگے بڑھاؤ۔ ان دوستوں کا ہمقدم بن کر جتنا تم کر سکتی ہو، وطن کے محبت کے قرض چکاو اور میں یہ جانتا ہوں کہ تم ایک بہادر لڑکی ہو۔ میرا لہو تمہیں کبھی کمزور ہونے نہیں دیگا۔”

مگر ہانی اسے بولنا چاہتی تھی کہ تم نے بہت کچھ کرلیا ہے، اس سے آگے نہیں، تم یہاں سے کہیں دور کسی اور ملک بھی جاسکتے ہو، جہاں ہم بخوشی ساتھ رہ سکتے ہیں۔ جہاں یہ دوری اور یہ انتظار نہ ہو، جہاں راتوں کو خوف کروٹیں نا بدلے، جہاں کے دن ڈر کی تپش سے محفوظ ہوں۔ یہاں تک چلے ہو یہی بہت ہے، جو کر پائے وہی بہت ہے، اب بس کرو، اب یہاں سے نکلو اب اور نہیں، صرف تم ہی تو اس محبت کے مقروض نہیں کہ چکاتے رہے، ایک تم ہی تو تقاضوں کے پابند نہیں کے نبھاتے رہو۔

ہانی یہ سب من ہی من میں سوچ رہی تھی، مگر اس نے زبان پر کچھ نہیں لایا، وہ جانتی تھی کہ جس کی محبت و چاہت میں نثار نکل چکا ہے، اس راہ پر تو نثار نے ابھی ادنیٰ سا بھی حصہ ادا نہیں کیا ہے۔ وہ جانتی تھی کہ وطن کی چاہ کیا ہوتی ہے، وہ جانتی تھی کہ آزادی کیا شئہ ہوتی ہے، وہ آج اپنے محبت کو اپنے لوگوں کے آنے والے خوشحال صبح کی خاطر جانے دینا چاہتی تھی۔ وہ اسے اپنے فرض سے منہ موڑنے کا خیال تک لانے کا سوچ نہ سکی، وہ نثار کو ایک جہدکار اور ایک سرمچار کے روپ میں دیکھ کر خود پر نالاں تھی کہ اس نے ایک عظیم شخص کے ساتھ زندگی کے چند ہی خوبصورت لمحے گذارے۔ وہ خود پر نازاں تھی کہ اس نے ایک جہد کار، ایک باہمت سپاہی کے ساتھ اپنے زندگی کے سفر کا آغاز کیا ہے۔ اسے فخر ہو رہی تھی کہ اسکا محبوب کس قدر عظیم سوچ و عظیم رستے کا راہی ہے۔

وہ آنسوؤں کو روکتے ہوئے مسکراتے لبوں سے نثار کو الوداع کہہ کر اس سے وعدے پر کہ اسکے بعد ہانی ہر اس کام کا حصہ بنے گی جو وطن کی آزادی میں کام آئیں گی۔ اس نے نثار کو یقین دلاتے ہوئے رخصت کیا کہ وہ اسکے ساتھ، اسکے بندوق کو تھامے رکھے گی، وہ رات کے اندھیرے میں نثار کو آخری بار شہر سے نکلتے دیکھ رہی تھی۔ اس دن کے بعد کبھی بھی اسے یہ پشیمانی یا ڈر نہیں تھا کہ وہ ایک ایسے شخص کا انتظار کر رہی ہے، جو شاید کبھی لوٹ کر نا آسکے۔

ہانی اس رات بھی آگ جلا کر انتظار میں بیٹھی رہی، جس دن اسے یہ خبر ملی تھی کہ نثار بولان کے پہاڑوں میں دشمن سے لڑتے ہوئے وطن کی چاہ میں فنا ہوگیا ہے۔ اس رات وہ بھرم سے اس فخر میں تھی کہ اسکا محبوب محبت میں کامیاب ہو گیا۔ اسے فخر محسوس ہو رہی تھی کہ اس نے کسی بزدل و بےایمان سے محبت کی آس نہیں لگایا تھا بلکہ وہ جس سے محبت کرتی ہے وہ ایک عظیم انسان تھا۔ وہ اسکے یاد میں یونہی روز آگ جلا کر اسکی روشنی میں نثار سے ڈھیر ساری باتیں کرتی رہتی۔ اس سے پہاڑوں کے متعلق سوال کرتی، جنگ کے متعلق باتیں کرتی، وہ اکثر شام یونہی گذارتی، آج بھی وہ نثار کے انتظار میں اب تک بیٹھی ہوئی تھی۔

اگلے دن وہ بتائے ہوئے جگہ پر پہنچنے کے لیئے گھر سے نکلی، اس نے اپنے ساتھ والے سیٹ پر دونوں پسٹل کپڑے میں لپیٹ کر رکھ دی اور متعلقہ جگہ پر پہنچ گئی۔ کار میں بیٹھی رہی، کچھ دیر بعد علی اور زوہیب اسی جگہ پر پہنچ گئے، اس نے رومال سمیت دونوں پسٹل انکو دے دیا اور گاڑی نکال کر اسکول کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ کچھ دیر بعد اس نے اپنے مبائل سے نمبر ڈائل کردیا، جب اس نے سامنے دفتر سے ایک سفید کپڑوں میں ملبوس شخص کو دیکھا تو اپنے باقی ساتھیوں کو اطلاع دی اور پھر مسکرا کر ساتھ والے سیٹ پر بیٹھے نثار کے ساتھ مسکراتے ہوئے، وہاں سے نکل کر ہوٹل کے پیچھے میدان میں آکر کار روک دی۔ وہ محسوس کر رہی تھی کہ نثار مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا ہو، وہ نثار کے آنکھوں میں خود کے لیئے ابھرنے والی محبت و فخر کو محسوس کر سکتی تھی، اس نے اسکول کی طرف سے دو گولیوں کی چلنے کی آواز سنی۔

کچھ ہی دیر بعد علی اور زوہیب طے کردہ جگہ پہنچ گئے، ان سے اسلحہ لیکر گاڑی میں رکھ دیا اور نثار کے ساتھ مسکراتے ہوئے باتیں کرتے ہوئے گھر کی طرف نکل گئی۔