شــــــہدائے جون کو سرخ سلام
تحریر: لیاقت بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جون ایک ایسی ماہ ہے، جس نے ہر کسی کو تہہ دل سے رونے پر مجبور کیا۔ اگر ہم دیکھیں مظلوم اور ایک غلام قوم کیلئے ہر وہ دن سیاہ اور ایک عزاب ہے جب تک سامراج کا قبضہ اسکی سرزمیں پر قائم ہے، ایک مظلوم قوم کو سامراج یا قبضہ گیر کبھی بھی موقع نہیں دیتا کہ وہ اپنے یا اپنےقوم پر ہونیوالی ظلم کو ایک منتقی انجام تک پہنچائے. آج بلوچ جس مقام پر کھڑا ہے، اسکی وجہ قربانیاں ہیں. ہم بلوچ سرزمین کے نوجوان طبقے کو دیکھیں تو ہمیں ایک تعلیم یافتہ طبقہ ملے گا۔ مگر کچھ ایسے ہیں جو چاہ کر بھی پڑھ نہ سکے، لیکن جون نے ہم سب طلباء کو یتیم بنادیا۔ جس نے ہمارے اندر کی صلاحیتوں کو چھین لیا لیکن ہم پیچے نہیں ہٹے.
جون کی مہینے نے صرف ہمیں نہیں بلکہ سب کو رلایا ہے، کتابوں سے لیکر لائبریریوں تک امیر سے لیکر غریب تک، سیاسی محاذ سے لیکر جنگی محاذ تک، ہم نے جون میں ایسے اشخاص کھوئے ہیں، جو معاشرے میں ایک رونق تھے۔ ویسے تو معاشرے میں ہر طرح کی لوگ رہتے ہیں لیکن کچھ معاشرے میں تبدیلی لاتے ہیں اور کچھ تباہی. ہمارے استاد و راہشون شہید واجہ صبا دشتیاری جیسے انسان کو کھونا ہمارے معاشرے میں ایک تباہی سے کم نہیں تھا۔ جس نے درندوں کے منہ میں پھتر پھینک کر اسے گہری نیند سے بیدار کیا. وہ ایک آواز تھا بے آواز لوگوں کیلئے، وہ امید کا ایک کرن تھا، انسانیت کیلئے ایک آواز تھا۔
اس معاشرے کو تعلیم یافتہ بنانے کیلئے، انہوں نے اپنے جیب سے ایک لائبریری کھولا، عام بلوچ غریب طلباء کیلئے فیس بھرتا رہا. بلوچ نوجوانوں کیلئے وہ مشعلِ راہ بن گیا تھا. بلوچ قوم کو اور نوجوانوں کو بری عادتوں سے دور کرنے کیلئے، انہوں نے کتابوں کی طرف راہ کھولی. ہمیں ہمیشہ ایماندار اور مخلص انسان کی بخت نہیں رہی ہے کیونکہ وہ سب سے زیادہ لائق اور درد وار ہوتے ہیں۔ وہی ریاست کت نشانے پر زیادہ ہوتے ہیں۔
جون کا ماہ ہمارے لیئے ایک بڑھکتی ہوئی آگ سے کم نہیں، جس نے ہمیں بہت جلایا لیکن ہم پیچے نہ ہٹے. شہید صباء صاحب کو دشمن نے 11 جون 2011 کو شہید کیا. ہمیں صبا جیسے لیڈران کی اشد ضرورت ہے۔
اسی مہینے میں، اگر بلوچستان کی تاریخ پر پر نظر ڈالیں تو بے شمار شہدا ملیں گے، لیکن کچھ کا ہی پتا ہے انکے بارے میں لکھ رہا ہوں. نواب خیربخش مری بھی ایک عظیم انسان تھا، جس نے ہر وہ کوشش اور جہد کی جو بلوچ قوم کو اپنے منزل کی جانب لیجائے، وہ بھی اپنی عمرِعاجزی میں ہم سے اسی مہینے میں رخصت ہوئے۔ اس نے ہمارے حوصلوں کو بلند رکھا ہوا تھا.
حمید بلوچ بھی اسی نوجوان طبقہ میں سے ایک تھا، جس نے اپنی چھوٹی عمر میں نئی تاریخ رقم کی. حمید بلوچ بلوچستان کا مظلوم نوجوان طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود، بلند حوصلوں کے ساتھ دشمن کا سامنے سینہ سپر رہا۔ جس نے ایک ایسی قربانی دی جسکی یاد ابھی تک تاریخ ہمیں دلاتی ہے. اس نے جب عمانی افسر پر تیر برسائے اور بلوچ قوم سے کہا کہ ہم خود ایک مظلوم قوم ہیں، تو ہم کیوں عمانی فوج میں جاکر کرائے کے قاتل بن کر ظفاری قوم پر ظلم کریں؟ بہتر یہی ہوگا کہ ہم اپنی خودمختیاری کیلئے لڑیں.
حمید بلوچ نے ان پر گولیاں برسا کر نوجوانوں میں ایک نئی سوچ پیدا کردی، سامراج کے خلاف غصہ پیدا کیا. اسکے بعد شہید کو 11 جون 1981 کو سولی پر چڑھایا گیا۔ وہ بھی ایک لیڈر تھا، سیاسی محاز سے لیکر جنگی محاز تک۔
جنگی محاذ کا ایک اور مثال ہماری سامنے خود آتا ہے جب ہم 30جون 2015 کی اس دن کو یاد کرتے ہیں، جب شہید شہیک جان نے پوری قوم کے سر کو فخرسے اونچا کردیا اور ہمارے حوصلوں کو اونچا کیا. شہید شہیک انقلاب کی نئی کرن بن کر سامنے اور انقلاب کے پھولوں کو اپنے لہو سے سرخ کردیا. شہیک نے اپنی قوم سے کھبی دغا نہیں کیا، جو بھی کرتا تھا بلوچ قوم کیلئے تھا. جب جنگ کیلئے نکلتا تھا، تو کھبی بھی ہار نہیں مانتا تھا، شیہک جان کو ساتھیوں سمیت پاکستان ظالم ریاست نے شہید کردیا۔ وہاں ایک ایسی جنگ لڑی گئی تھی کہ ایک ہفتے تک وہاں خون کا بو تھا، وہاں شہیک اپنے ایک بھائی اور چچا اور دس ساتھیوں سمیت شہید ہوئے. دورانِ جنگ شہید شہیک جان زخمی حالت میں اپنی ایک ایسی ویڈیو بیان جاری کرتا ہے، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتنا حوصلہ اور کتنا بہادر تھا وہ شخص۔