خواتین کیلئے بھارت دنیا کا خطرناک ترین ملک

175

بین الاقوامی ماہرین کی جانب سے دنیا بھر میں خواتین کو درپیش مسائل کے حوالے سے کیے گئے سروے میں یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ جنسی استحصال اور جبری مشقت کے لحاظ سے بھارت خواتین کے لیے دنیا کا سب سے خطرناک ملک ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے سی این این کی رپورٹ کے مطابق ’تھامس رائٹرز فاؤنڈیشن‘ نامی ادارے کی جانب سے کیے گئے اس سروے میں 550 ماہرین نے حصہ لیا۔

سروے کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ خواتین کے خلاف جنسی زیادتی کے واقعات، گھریلو کاموں کے لیے خواتین کی خریدو فروخت، جبری مشقت، زبردستی شادیاں اور جنسی غلامی کے حوالے سے بھارت دنیا کا سب سے غیر محفوظ ملک ہے۔

تفصیلی سروے میں تقافتی طور پر رائج رسومات کے خواتین پر مرتب ہونے والے اثرات، تیزاب پھینکنے کے واقعات، کم عمری میں شادیاں اور جسمانی تشدد کے عوامل کو بھی ملحوظ خاطر رکھا گیا۔

بھارتی خبررساں ادارے این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سروے میں افـغانستان کو دوسرے نمبر جبکہ شام کو خواتین کے لیے دنیا کا تیسرا خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا جبکہ اولین دس ممالک میں صرف ایک مغربی ملک امریکا شامل ہے جو دنیا کے دسویں خطرناک ترین ملک کے طور پر سامنے آیا۔

خیال رہے کہ 2011 میں اسی قسم کے کیے گئے سروے میں افغانستان پہلے جبکہ پاکستان اور بھارت بالترتیب تیسرے اور چوتھے نمبر پر موجود تھے۔

ماہرین کے مطابق حالیہ سروے میں بھارت کا دنیا میں خواتین کے لحاظ سے خطرناک ملک قرار پانا اس بات کا عکاس ہے کہ حکومتی سطح پر خواتین کو درپیش خطروں سے نمٹنے کے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے، جبکہ نئی دہلی میں 5 سال قبل بس میں ایک طالبہ کے ریپ اور قتل کے بعد ملک میں خواتین کے خلاف جنسی استحصال کو قومی ترجیحات میں شامل کیا گیا تھا۔

اس حوالے سے کرناٹک کے ایک حکومتی عہدیدار منجوناتھ گندھارا کا کہنا تھا کہ بھارت میں خواتین کو انتہائی بدسلوکی اور توہین کا سامنا ہے، ریپ، ازدواجی ریپ، جنسی استحصال، جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات بغیر کسی توقف کے جاری ہیں۔

تاہم بھارت کی وزارت برائے خواتین اور چائلڈ ڈیولپمنٹ نے سروے کے نتائج پر تبصرے سے انکار کردیا۔

سروے میں شامل ایک امریکی ماہر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں جاری جنگ اورتنازعات میں آنےوالی شدت کے سبب خواتین اور بچیوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں جو دنیا کے دوسرے خطرناک ملک کے درجے پر فائز ہے۔

اس ضمن میں افغانستان کے صحت عامہ کے وزیر فیروزالدین فیروز کا کہنا تھا کہ ملک میں سیکیورٹی کی ابتر صورتحال کے باعث خواتین کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے، جبکہ 17 سال سے جاری اس جنگ میں ملک کے زیادہ تر علاقوں میں طالبان کا قبضہ ہے، ان وجوہات کی بنا پر ہم ماؤں کی صحت اور غذائیت پر وسائل خرچ کرنے کے بجائے ان مسائل پر پیسہ خرچ کررہے ہیں۔

گزشتہ 7 سال سے جنگ کا شکار ملک شام صحت عامہ تک محدود رسائی جنسی اور غیر جنسی تشدد کے باعث تیسرا خطرناک ترین ملک قرار پایا۔

اس حوالے سے شام میں خواتین کے لیے کام کرنے والی’ویمن ناؤ فار ڈیولپمنٹ‘ نامی تنظیم کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ماریہ العبدیح کا کہنا تھا کہ خواتین اور بچیوں کو بہت سارے خطروں کا سامنا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اتحادی افواج کی جانب سے جنسی استحصال، گھریلو تشدد، کم عمری میں شادی، زچگی کے دوران ماؤں کی اموات جیسے مسائل کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے’۔