بلوچ قومی تحریک اور اجارہ دار گروہ – آنوش بلوچ

230

بلوچ قومی تحریک اور اجارہ دار گروہ

آنوش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

علی عباس جلالپوری کے بقول تاریخ کا سفر خط مستقیم میں اگے بڑھتا ہے، ۔بلوچ قوم کی تحریک تاریخی تسلسل کو مندرجہ بالا جملے کے حوالے سے پڑھا جائے تو یہ بات مزید واضح ہوجاتی ہے کہ بلوچ قومی تحریک محدود وسائل کے باوجود روز بروز بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی ھے، بلکہ شفافیت کا عمل بھی جاری و ساری ہے۔ کسی بھی تاریخی تعمیری اور انقلابی عمل میں اضداد کا وجود اس بات کی دلالت ہیکہ وہ عمل جمود کا شکار نہیں بلکہ آگے کی جانب رواں دواں ہے۔ بلوچ قومی تحریک میں بھی تضادات کا وجود انکی نشاندہی ان پہ بحث و مباحث کا عمل، کسی بھی طرح اس عمل کو تخریبی عمل کا نام نہیں دے سکتے، نہ ہی یہ کوئی مایوس کن عمل ہے، بلکہ یہ امید افزاہ بات ہوگی کہ تحریک جدید سائنسی طرزفکر کے ساتھ شخصی اثرو رسوخ سے نکل کر نظریاتی بنیادوں پہ بڑی مضبوطی سے مستحکم ہورہی ہے۔

لیکن آخر وہ کونسی حالات اور نفسیات کارفرما ہے، جو اتنے بڑے اور ناقابل تلافی نقصانات کے باوجود مخصوص گروہ اور شخصیات کے آمرانہ طرز فکر کو تبدیل کرنے میں ناکام رہے۔ اگر اس نفسیات کے پیچھے چپھے ان محرکات کا جائزہ لیں، تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے، کہ تاریخی اعتبار سے جو بھی ریاست یا جو لوگ جس تاریخی تسلسل سے گذرتی ہے، اسکا سیاسی یا سماجی نظام اسی تسلسل سے ابھرتا ہے۔

بلوچ جو سفید قبضہ گیریت سے نکل کر کالے یا نیم کالے پنجابی استعماریت کے زیر تسلط آگیا۔ قریباً پونے دو صدیوں پہ محیط اس ظالمانہ نوآبادیاتی نظام نے بلوچ معاشرے کو نہ صرف ناقابل تلافی جانی نقصان پہنچایا بلکہ سماجی، سیاسی اور نفسیاتی طور پہ بھی بلوچ معاشرے کے تار وپود بکھیر کر رکھ دیئے۔ جس کا اظہار یا سرایت بلوچ قومی تنظیموں اور ان سے جڑے کچھ شخصیات میں واضح نظر اتا ہے۔ بلوچ قومی تحریک جو مختلف اور تکلیف دہ مراحل سے گذر کر آج ایک فیصلہ کن موڑ پہ پہنچی ہے۔ جس کا دائرہ کار بھی مختلف اور مخصوص سرکلز سے نکل کر پورے بلوچ معاشرے میں نفوز کرچکا ہے اور اس سے متاثرہ بھی پورا بلوچ قوم ہے۔

بد قسمتی کہیئے کہ آج بھی وہی نوابادیاتی نفسیات، جہاں ایک مقامی نوآبادکار کی جگہ لیکر ایک منی ڈکٹیٹر بن کر رہنا چاہتا ہے۔ اسی طرز فکر کو لیکر آگے بڑہنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جسکی طرف بابا خیربخش مری نےبھی اشارہ کیا تھا کہ ” کل کو ہم بھی کوئی چھوٹے موٹے فرعون تو نہیں بنیں گیں”

موجودہ صورتحال میں اس طرز فکر کو بدلنے میں ہمارے ان فرعونوں کو کتنے عرصہ اور درکار ہے اور اس طرزفکر کو تبدیل کرنے اور اس سے نبرد آزما ہونے کے لیئے ہمارا آگے کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔ اس پہ تفصیلی بحث ومباحث کی ضرورت ہوگی۔