بلوچستان کا قوم پرست بیٹا، خیربخش مری – نادر بلوچ

1002

بلوچستان کا قوم پرست بیٹا، خیربخش مری
تحریر : نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

مادر وطن بلوچستان جب سے بیرونی استعماری قوتوں کی جارحیت کا شکار ہے۔ ہزاروں بلوچ فرزندوں نے اس غلامی کے خلاف اپنی زندگی وقف کرکے وطن کو ان زنجیروں سے چھڑانے کےلیئے میدان عمل میں لڑتے لڑتے امرہو گئے۔ لمہ وطن کے انہی تابعدار اور فرمانبردار فرزندوں میں سے ایک سردار خیر بخش مری تھے، جنکو احساس غلامی نے قومی جہد اور قوم پرست سیاست میں شامل ہونے اور اپنا کردار ادا کرنے کا احساس دیا تو جوانی سے لیکر آخری دم تک ثابت قدم رہے اور زندگی کے ہر لمحہ و ساعت کو قومی جہد سے منسلک رہ کر گزاردی۔

اگر ہم قومی تحریکوں میں قوم پرست کرداروں کی تلاش کریں تو خیر بخش مری ان حقیقی قوم پرستوں میں اول نمبر پر نظر آئیں گے۔ قوم پرستی و قوم دوستی نے انہیں درویش بنا دیا تھا۔ قوم اور تحریک کے علاوہ نہ انکا کوئی کام تھا نہ ہی کوئی اور دکھ و درد، قوم کے دکھ اور درد کو اپنا سمجھنے والے اس قوم پرست فرزند نے تمام عارضی آسائشوں کو چھوڑ کے مصیبتوں، سختیوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا دیا تھا۔

تحریک کو زندگی دینے والا یہ بلوچ فرزند ایک ہی وقت میں کئی کردار نبھا رہا تھا، رہبر، جہدکار، استاد، ساتھی، کمانڈر، الغرض تحریک نے اس سے جس کردار کا مطالبہ کیا، اس نے وہی کردار ادا کی۔ ایک سچے اور امانت دار انسان ثابت ہوئے۔ تحریک جہاں سے انکے پاس پہنچی تھی وہاں سے آگے انہوں نے بھر پور رہنمائی کا کردار ادا کیا۔ نظریہ آزادی کو امانت سمجھ کر اسکی ابیاری اور حفاظت کرتے رہے۔ تحریک کے ساتھ طویل شراکت داری اور قوم پرستی نے انہیں قومیت کا ایسا احساس دیا کہ وہ قوم کے ہر بیٹے کو اپنا بیٹا سمجھتے تھے۔ بلوچ فرزندوں کی شہادت پر انہیں اتنا ہی دکھ ہوتا تھا، جتنا انہیں شہید بالاچ کی شہادت پر ہوا تھا۔ سادگی میں انکے ہمعصر سیاست دانوں میں کوئی ثانی نہیں تھا۔ مگر پھر بھی میڈیا اور عام محفلوں میں کھبی قومی اور تحریکی کمزوریوں، رازوں سے پردہ نہیں اٹھاتے اور نہ ہی صحافی انکی سادگی کو استعمال کر سکتے تھے۔

بابا مری کی شخصیت تاریخ کے ان طالبعلموں جیسی تھی کہ جتنا سیکھا اسی کو قومی تحریک کیلیے استعمال کیا۔ قوم پرستی اور قوم دوستی نے نہ انہیں سوشلسٹ بننے دیا اور نہ ہی وہ سامراجی قوتوں کے ہمنواء بنے۔ انکی جہد کا محور بلوچ قوم اور بلوچستان رہی۔ ہمشہ انکی نگاہ قبضہ گیر ریاست اور اسکی بلوچ قوم کے خلاف چالوں پر رہی، جسکی بنیاد پر انکا تجزیہ قوم کو خبردار رکھتی اور صحیح موقع پر سنبھلنے کا موقع دیتے۔ بلوچ وطن میں ساحل و وسائل کی لوٹ مار اور آبادکاریوں کے ذریعے بلوچ قومی شناخت و بقاء کو مٹانے کی سازشوں کے خلاف، وہ ہمیشہ کمر بستہ رہے۔ قومی آزادی کو بلوچ قومی شناخت کی بقاء کا ضامن قراردیتے اور وقت ضائع کیئے بنا بلوچ قوم کو تحریک میں شامل ہونے کا درس دیتے تھے۔ وہ اقلیت کو اکثریت میں بدلنے پر پختہ یقین رکھتے تھے اور بلوچ قوم کو خوف و مصلحت پسندی سے نکال کر جہد میں شامل ہونے کی ترغیب دیتے تھے۔

بعض لوگ بابا خیربخش مری کو نیلسن منڈیلا اور دیگر کرداروں سے تشبیہہ دیتے ہیں جبکہ یہ سردار خیربخش اور اس کی جہد کے ساتھ ناانصافی ہوگی کیونکہ وہ جس خطہ زمین پر پیدا ہوئے اور قومی غلامی کی جس جبر کے خلاف علم بغاوت بلند کی شاہد ہی دنیا میں کوئی بھی ایسے جہد کرنے کے قابل ہوا ہے۔ متواتر ریاستی ظلم و جبر اور قبضہ گیریت سے نبرآزما بلوچ قوم کو ریاست کے خلاف بار بار جہد کیلئے تیار کرنا، سردار مری کی کرشماتی لیڈر شپ کی عکاسی ہے۔

پانچویں مزاحمت اور نظریہ آزادی کو بلوچ نوجوانوں تک منتقل کرنا بابا خیر بخش مری کی کامیابیوں میں سب سے بڑی کامیابی ہے، جو مسلسل ۲۰ سالوں سے قبضہ گیریت کے سامنے چلتن کی چٹانوں کی مانند کھڑی ہے۔ اس حکمت عملی کو ہی انکی ریاست کو شکست ثابت ہورہی ہے اور آج قومی تحریک آزادی ایک تناآور درخت کی طرح دنیا کے نقشہ پر ایک کامیاب تحریک میں شمار ہو رہی ہے۔ خیربخش مری کا پاکستان اور اسکے ریاستی ڈھانچے کو کھلا چیلنج ہےکہ دیکھو تمھاری مکاری بلوچ قوم کو غلام رکھنے میں ناکام ہورہی ہے اور میری سادگی اور حکمت عملی کو بلوچ قوم اور نوجوان شعوری شکل دیکر آج کامیابی سے تنظیمی جہد کو آگے بڑھا رہیں ہیں۔

بابا خیر بخش مری ہمیشہ ریاست سے برسرپیکار رہے، ریاست نے ہمیشہ بلوچ قومی تحریک کے خلاف چالیں چلیں، لیکن خیربخش انکے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے رہے۔ بلوچ قومی تحریک کو طبقاتی تحریک قرار دینے کیلئے سردار اور اینٹی سردار، لوئر و اپر کلاس، مڈل کلاس جیسی طبقاتی تقسیم پیدا کیا گیا۔ مگر انکی قوم پرستی کے سامنے ریاست کی تمام کوششیں ریت کی دیوار ثابت ہوئیں اور قوم پرستی اور قومی سوچ کامیاب ہوئی، تحریک آج بھی بلوچ قوم کے ہاتھوں میں ہے۔ انکی زندگی پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔ بلوچ نوجوان، سیاسی تنظیمیں انکی نظریہ اور فلسفہ سیاست کو سمجھ کر قومی تحریک کو منزل تک پہنچا سکتے ہیں۔