ایف سی، افطار اور مسخ شدہ لاشیں _ دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ

440

ایف سی، افطار اور مسخ شدہ لاشیں

دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ

یاران دیار

بلوچستان میں بلوچ سیاسی کارکنان کے اغواء، گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کی بازیابی کا نا تھمنے والا تسلسل ہو یا پھر بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں جاری ہزارہ نسل کشی، اس بابت نا صرف انگلیاں پاکستانی پیراملٹری فورس فرنٹیئر کور کی طرف اٹھتے نظر آئیں گے بلکہ شواہد بھی اسی جانب جمعی اور ناقابلِ تردید حد تک اشارہ کرتے ہیں۔ ایف سی کے اس کردار کی وجہ سے یہ پیراملٹری فورس بلوچستان میں ایک خوف کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ جس کے بارے میں بلوچستان میں عام تاثر یہ ہے کہ “اس کے ہاتھوں جان اور عزت دونوں محفوظ نہیں۔”

فرنٹیئر کور کے اس گرتے ساکھ کو بحال کرنے کیلئے ایک نئے منصوبے کے تحت، ایف سی نے رمضان کے مہینے میں بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں قائم اپنی چیک پوسٹوں پر آنے جانے والے لوگوں کو افطاری کے لیئے ایک عدد سموسے کے ساتھ چند پکوڑے بانٹنے کی ایک مہم شروع کردی ہے۔ جو تقریباۤ عید تک جاری رہےگی اور اس حوالے سے ایف سی نے ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے، جس میں چند بوڑھے افراد ایف سی کیجانب سے ملنے والے پکوڑوں پر کافی خوش نظر آتے ہیں۔ بادی النظر ایف سی کے اس فراخ دلانہ اقدام کی تشہیر پر اتنا ہی خرچ کیا جارہا ہے جتنا کہ سموسوں اور پکوڑوں پر، لیکن کیا یہ چند پکوڑے اور ایک سموسے سے ایف سی لوگوں کا دل جیت پائے گا؟

واضح رہے کہ بلوچستان میں جاری آزادی کی تحریک کو کچلنے کیلئے بلوچستان بھر میں ریگیولر آرمی کے علاوہ پاکستانی پیراملٹری فورس ‘فرنٹیئر کور’ (ایف سی) تعینات ہے اور تمام علاقوں، شہروں ، بازاروں اور شاہراؤں پر ایف سی کے چیک پوسٹ قائم ہیں۔ جو آنے جانے والے لوگوں کو روک کر ان کی تلاشی لیتے ہیں، ان سے سوالات پوچھتے پیں اور کاغذات وغیرہ چیک کرتے ہیں، اس کے علاوہ ٹارگٹڈ آپریشن ہوں یا تعلیمی اداروں میں تعیناتی۔ حتیٰ کے امتحانی مراکز تک میں ایف سی اہلکار بھاری تعداد میں تعینات نظر آتے ہیں۔

ایک بلوچ قوم پرست جماعت سے تعلق رکھنے والے کامریڈ نذیر بلوچ کوئٹہ کلی قمبرانی کا رہائشی ہیں، وہ بلوچستان یونیورسٹی میں بھی طالبعلم رہ چکے ہیں، بلوچستان میں سیاسی کارکنان کے ماورائے قانون گرفتاریوں اور ماورائے عدالت قتل کے باعث وہ اس وقت جلاوطنی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ دی بلوچستان پوسٹ سے ایف سی کے رویے اور کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: “ایف سی بالخصوص گذشتہ دو دہائیوں سے عوام خاص طور پر بلوچستان میں آباد بلوچ عوام پر سر بازار تشدد کرنے، بزرگوں کو بے عزت کرنے، نوجوانوں کو شہر کے بیچوں بیچ مرغا بنانے، باپ کو بیٹے کے ہاتھوں تھپڑ لگوانے، موٹر سائیکلوں کے گرم سائلینسروں تک کو چومنے پر مجبور کرنے اور بیچ بازار میں نوجوانوں کی مونچھیں اور بڑی شلواریں کاٹنے جیسی ہتک آمیز رویوں کو برتتا رہا ہے۔ یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ بازار میں چلتا پھرتا ہر شخص مزاحمت کار نہیں بلکہ یہ باقاعدہ ” ریسیل پروفائلنگ” ہوتی ہے۔ صرف بلوچ ہونے اور بلوچ ثقافتی لباس زیب تن کرنے یا بلوچی داڑھی مونچھیں رکھنے تک پر لوگوں کی سر راہ عزتِ نفس مجروح کی جاتی ہے۔ ایف سی کھلے عام اس نفرت کا اظہار ان الفاظ کے ساتھ کرتی رہی ہے کہ ” تم بلوچ سب کافر اور دہشتگرد ہو۔” اس سے یہ ظاھر ہوتا ہے کہ بلوچ کے بارے میں ملٹری اسٹبلشمنٹ کی ذہنیت کیا ہے اور فوج کے ایک عام سپاہی تک کے سامنے کیا پروپگینڈہ کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے سب بلوچ نسل کشی پر اتنے آمادہ نظر آتے ہیں۔”

نذیر بلوچ نے مزید کہا کہ ” لوگوں کی عزت نفس کو مجروح کرنا ایک طرف لیکن اب یہ ایک کھلا راز ہے کہ بلوچستان سے جتنے لوگ لاپتہ ہورہے ہیں اور جو مسخ شدہ لاشیں روز کہیں نا کہیں پڑے مل رہے ہیں۔ اسکے پیچھے خفیہ ادارے اور فرنٹیئر کور ہے۔”

ایک طرف بلوچ اپنے تمام مصائب اور قتل عام کا ذمہ دار اس ادارے کو قرار دے رہے ہیں، تو دوسری طرف بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں آباد ہزارہ قوم بھی بارہا یہ الزام لگاتی رہی ہے کہ ہزارہ نسل کشی کے پیچھے انہی اداروں کا ہاتھ ہے۔ “ورنہ یہ کیسے ممکن ہوتا کہ اتنے ایف سی چیک پوسٹوں کے بعد جہاں سے کوئی بلوچ بڑی شلوار پہن کر گذر نہیں سکتا، وہاں سے کوئی خود کش جیکٹ پہن کر بندوقوں کے ساتھ آرام سے گذر جاتا ہے۔”

مزید پڑھیں:۔
ہزارہ نسل کشی اور بلوچ قومی تحریک کا تعلق؟ دی بلوچستان پوسٹ تفصیلی رپورٹ

ایف سی کی اندرون بلوچستان اس طرح کی کاروائیوں کی خبر بہت کم ہی باہر جاپاتی ہے لیکن ایف سی اس وقت عالمی سطح پر انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے ہدفِ تنقید بنی، جب 17 مئی 2011 کو ایف سی نے خروٹ آباد چیک پوسٹ پر 5 نہتے لوگوں کو فائرنگ کر کے قتل کردیا، جن میں ایک حاملہ خاتوں سمیت تین عورتیں، اور دو مرد شامل تھے۔

یاد رہے کچھ عرصہ قبل کوئٹہ میں ایک اعلیٰ پولیس افسر نے سپریم کورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ لوگوں کو اٹھانے میں ایف سی ملوث ہے، انہوں نے دو بلوچ نوجوانوں کے ایک چیک پوسٹ سے اغواء ہونے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی عدالت کو فراہم کی تھی لیکن ثبوت و شواہد کے باوجود کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی۔ اسی طرح بلوچستان کے سابق وزیر صادق عمرانی نے بھی اپنے ایک بیان میں ایف سی پر الزام عائد کیا تھا کہ یہ ادارہ بشمول انکے کچھ رشتہ داروں بلوچوں کو ماورائے عدالت گرفتار کرنے اور لاپتہ کرنے میں ملوث ہے۔

بلوچستان کی قوم پرست سیاسی پارٹیاں اور تنظیمیں اور لاپتہ افراد کے لواحقین، لوگوں کے لاپتہ ہونے، مسخ شدہ لاشیں برآمد ہونے اور عوام پر تشدد جیسے واقعات کے ذمہ دار ایف سی سمیت دیگر پاکستانی فورسز و خفیہ اداروں کو قرار دیتے رہے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل ایک وڈیو بھی منظر عام پر آئی تھی، جس میں فرنٹیئر کور اہلکاروں اور خفیہ اداروں کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ ایک لاپتہ نہتے بلوچ نوجوان کو گولیاں مار کر قتل کرکے ویرانے میں پھینکتے ہیں۔

فرنٹیئر کور پر ثابت شدہ الزامات کا سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوتا، یو این پی او کی جانب سے شائع کردہ 13 اپریل 2016 رپورٹ کے مطابق صرف تین دن کے دوران اپریل 9 سے اپریل 11 تک ایف سی نے 35 افراد کو قتل کردیا تھا اور 200 سے زائد اغواء کیئے تھے۔

اگر شواہد کے بنیاد پر ثابت شدہ واقعات کے رو سے ہی دیکھا جائے تو فرنٹیئر کور جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب پایا جاتا ہے۔ یہ اعمال اسے نا صرف بلوچ عوام میں بلکہ عالمی سطح پر بھی متنازعہ، ظالم اور قابلِ نفرت قرار دینے کیلئے کافی ہیں۔ کیا ان تمام اعمال کا کفارہ رمضان میں ایک عدد سموسہ اور چند پکوڑوں سے ادا ہوجائے گا؟