اٹھائیس مئی یوم آسروخ – مہلب بلوچ

461

28 مئی یوم آسروخ
تحریر:مہلب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

دور قدیم سے ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ طاقتور قوموں نے مظلوم اور کمزور قوموں پر قبضہ کرکے ان پر جبر و تشدد کی نئی تاریخ رقم کی ہے، اسی طرح پاکستان نے 1948 کو بلوچستان پر جبری قبضہ کرکے بلوچ عوام کو جبر و تشدد سے اپنا غلام بنالیا اور آج 2018 میں بلوچ قوم کو ہر روز ایک نئی پالیسی کے تحت ظلم کا نشانہ بنارہا ہے۔ مختلف ہتھکنڈوں کو استعمال کرکے انہیں چپ کرانے کی کوششیں کررہا ہے۔ بمبارمنٹ،آپریشن،ماروپھینکو پالیسی کے تحت نوجوانوں کو لاپتہ کرنا اور بہت سے دیگر زرائع کا استعمال کرکے پاکستانی ریاست اپنے ظلم کے حدود کو وسیع تر کرتا جارہا ہے۔ ریاست جب کمزور ہوجاتی ہے تو اپنی کمزوری کا اظہار اپنے عمل سے کرتا ہے۔ آج پاکستانی ریاست خود اپنے عمل سےاپنی کمزوری کا اظہار کررہا ہے، کیونکہ ریاست بلوچ نوجوانوں کو شہید و لاپتہ کرکے انکے عزم و حوصلوں کو نہیں توڑ سکا، اس لیئے اب منفی ہتھکنڈوں کے ذریعے سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا سہارا لینے پر مجبور ہیں اور اپنی شکست کو نزدیک دیکھ کر بلوچ خواتین اور بچوں کو لاپتہ اور شہید کررہا ہے۔

خواتین کے لاپتہ ہونے اور ان پر تشدد کے کئی واقعات حال ہی میں رپورٹ ہوئے ہیں، جو پاکستانی دہشت گردی کی اہم مثال ہیں۔ بلوچستان جو قدرتی لحاظ سے بے حد خوبصورت ہے اور قدرتی ذرائع سے مالامال ہے۔ بلوچستان برطانیہ سے 11 اگست کو آزاد ہوا، تو 27 مارچ 1948 کو اس پر پاکستان نے قبضہ کیا۔ اس دن سے لیکرآج تک بلوچ قوم کو اذیتوں کا نشانہ بنا رہا ہے۔ اسی طرح 28 مئی 1998 کو پاکستان نے چاغی پر نیوکلیئر میزائل کا حملہ کرکے، دنیا میں اپنے طاقت کا اظہار کیا، مگر چاغی کو تباہ و برباد کیا گیا۔ اس ظلم کا کیا؟اپنے طاقت کو دکھانے کیلئے چاغی میں رہنے والے بلوچوں کی زندگیوں کا کیا؟

چاغی 28 مئی 1998 کے پاکستانی نیوکلئیر ٹیسٹ کے دن سے آج تک ایک قیامت خیز منظر پیش کررہا ہے۔ آج تک چاغی میں پیدا ہونے والے بچے صحیح سلامت پیدا نہیں ہوتے، ان بچوں کے اعضاء مکمل نہیں ہیں اور چاغی کے لوگوں میں مختلف قسم کی بیماریاں عام ہوگئی ہیں، جس میں کینسر سب سے زیاد تناسب میں ہے۔ چاغی جو سرسبز علاقہ تھا، مگر اب وہاں فصلیں نہیں اگتی۔ نیوکلیئر تجربے کی وجہ سے چاغی کی سرزمین بےحد گرم رہتی ہے۔ دنیا میں تو ریاست اپنے نیوکلئیر ٹیسٹ کو آبادیوں سے دو سو کلو میٹر دور کرتے ہیں، مگر پاکستان نے ایک انسانی آبادی پر نیوکلیئر ٹیسٹ کرکے وہاں کے آنے والے نسلوں کی بھی زندگیاں برباد کردی ہیں۔ ریاست ہمیشہ اپنے مفاد کی خاطر کمزور قوم پر اپنے طاقت کا اظہار کرتا ہے۔ 28 مئی 1998 بلوچ قوم کیلئے یوم سیاہ کا دن ہے کیونکہ آج تک چاغی میں پیدا ہونے والے بچے تک اس نیوکلئیر تجربے کی وجہ سے کمزور پیدا و اپاہج پیدا ہورہے ہیں۔

یہ قوم کو اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ ہمیں پاکستان نے اپنے مفاد کے خاطر برباد کردیا ہے۔ اقوام متحدہ اس سنگین واقعہ کو جانتے ہوئے بھی خاموش ہے کیوں؟ کسی بھی ریاست پر اقوام متحدہ کی پالیسیاں پابندی کے ساتھ عائد نہیں ہیں، جس کی وجہ سے ہر طاقتور ریاست اپنے مفاد کے خاطر دوسرے ملک پر ظلم کرتا ہے۔ کوریا، انڈیا اور جتنے بھی ممالک ہوں انہوں نے اپنے طاقت کا اظہار غریب اور مظلوم لوگوں پر کیا ہے ۔ نیوکلئیر ٹیسٹ کرنے سے انسان کے جسم میں Ionizing radiation کی rays داخل ہوجاتے ہیں جس سے انسانی جسم میں cell مر جاتے ہیں اور اسی وجہ سے انسان کینسر کے مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے اور یہ کینسر انسانی خون میں شامل ہوجاتا ہے، جس سے انسان اپنی زندگی سے دور ہوجاتا ہے۔

کل چاغی کے سرزمین کو استعمال کیا گیا تھا تو آنے والے دنوں میں پاکستان خود کو طاقتور ثابت کرنے کیلئے بلوچستان کے کسی اور علاقے کو استعمال کرے گا۔ آج چاغی کے سوا بلوچستان کی دیگر علاقوں پر نظرڈالیں، تو ان علاقوں میں بھی کوئی سہولت موجود نہیں ہے۔ اسکولوں پر ریاستی مورچے بنے ہوئے ہیں یا اگر کچھ اسکولز ہے بھی تو ان میں ٹیچر نہ ہونے کے برابر ہیں۔ انسان بغیر پانی کے زندہ نہیں رہ سکتا، تو آج بلوچستان کی عوام پانی کی بوند بوند کے لیئے ترس رہے ہیں، کچھ دنوں پہلے پسنی اور گوادر میں پانی کیلئیے مظاہرہ کیا گیا تھا، اسی طرح جھاو میں زہریلا پانی پینے سے 90 افراد کی حالت خراب ہوگئی، جس میں 8 افراد جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ اسی طرح بلوچستان کے عوام بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔

بلوچستان 27 مارچ 1948 سے اسی طرح ہر روز اپنے نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشوں پر ماتمی حالت کا سامنا کررہا ہے۔ 28 مئی 1998 کو پاکستانی ریاست نے مادر وطن بلوچستان کے دل میں ہی نیوکلیئر تجربہ کیا۔ ہم بچوں کو بچپن سے سکھاتے ہیں کہ زور زور سے اس مادر زمین پر قدم نہ رکھو اسے بھی تکلیف ہوتی ہے۔ تو پاکستان ایک اسلامی ملک ہونے کے باوجود اسے بلوچستان کی فریاد سنائی نہیں دیتی وہ چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی، بس کردو میرے نوجوانوں کی اتنی مسخ شدہ لاشوں کو اپنے اندر نہیں رکھ سکتی۔