بلوچ آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذربلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہماری جد و جہد قوم پرستی کی بنیاد پر عالمی اصولوں کے مطابق جاری ہے اور اس کا منطقی انجام بلوچستان کی آزادی ہوگی۔ اس جد و جہد کو کاؤنٹر کرنے کیلئے دشمن ریاست پاکستان مختلف حیلے اور سازشیں کر رہی ہے مگر بلوچ قوم نے دلیری سے مظالم کا مقابلہ اور سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے بہتر حکمت عملی بھی اپنائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دو دہائیوں پر محیط جد و جہد کو انسانیت سوز مظالم کے باوجو دختم نہیں کیا جا سکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قابض پاکستان کثیرالجہتی حربوں سے تحریک کو کاؤنٹر کرنے کی کوشش کررہاہے آج بلوچ قومی جدوجہد آزادی کے سامنے منحرفین ،وطن کے غدار، جاسوس اور مذہبی لبادھے میں ملبوس دہشت گردپراکسی سمیت کئی عناصر قابض نے کھڑی کی ہیں۔بلوچ قومی آزادی پسند تنظیموں نے ان کے خلاف موثرحکمت عملی تیار کی ہے اور اسی پر عمل پیرا ہیں۔ بلوچ قومی جد و جہدسمیت دنیاکے کسی بھی شفاف قومی تحریک میں غدار اور جاسوسوں کی گنجائش نہیں۔ مخبر اور جاسوس دشمن کے لئے آنکھ اور کان کا کام کرتے ہیں۔ ان کا تعلق کسی بھی گروہ، طبقہ یا ذات سے ہو، خواہ وہ کتنا ہی با اثر ہو، اُسے جرائم کی سزا ضرور ملے گی۔ کوئی اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ وہ بلوچوں کی جاسوسی، غداری کرکے اپنی جھوٹی باتوں اورموقع پرستانہ سیاسی دکانداری سے اپنا دامن صاف پیش کراکے نجات پاتا ہے تو وہ بہت بڑی غلط فہمی کے سراب میں غوطہ لگانے کی احمقانہ کوشش کررہاہے جس کا حقیقت کی دنیاسے کوئی واسطہ نہیں ہے۔یادرکھیں وہ لوگ جن کے ہاتھ بے شمار بلوچوں کے خون سے رنگے ہیں وہ کبھی بھی نہیں بخشے جائیں گے۔ بلوچ قومی تحریک اوربلوچ قومی تاریخ جلدانہیں اپنی احتساب کے شکنجے میں کس لے گا۔وہ اپنی منطقی انجام کا انتظار کریں۔ اس میں ایک سال لگے یا ایک دہائی، بلوچ قوم ان کا احتساب ضرور کرے گی۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ یہ جنگ بلوچ قوم کا فیصلہ کن جنگ ہے اور آزادی ہمارا مقدر ہے۔ پاکستان کے دعوے کہ یہ دو سرداروں یا مٹھی بھر لوگوں کی تحریک ہے؛ ہم انہیں یاد دلاتے ہیں کہ یہ ستر کی دہائی نہیں ہے بلکہ اس میں پوری قوم یکمشت ہے اور عام بلوچ کی شمولیت اور اداروں کے پابند ہونے کی وجہ سے یہ جنگ گزشتہ جنگوں سے یکسر مختلف ہے۔ ہمارے شہدا کے قربانیوں کی بدولت یہ جدوجہد بہت آگے جا چکی ہے اور اسی طرح جاری ہے گی۔ بلوچستان کو آزاد ہونے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ پاکستانی پارلیمانی جماعتیں، سنڈیمن کے پیداوارہرقبضہ کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والے سردار، میر و معتبر جو بلوچ قوم جدوجہدکی مخبری،دلالی میں ملوث ہیں انہیں عبرتناک سزا سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
قوم پرست رہنما نے کہا کہ بلوچستان کی آزادی کیلئے ہزاروں بلوچوں نے اپنی جانوں کی قربانی دی ہے اور ہزاروں تنظیمی بنیادوں پر دشمن کے خلاف بر سرپیکار ہیں اورلاکھوں بلوچ عوام نظریاتی شعورکے ساتھ ان کے حمایت میں ایستادہ ہیں۔ اگر میں صرف چند علاقوں کی مثال دوں تو اس سے مجبور ہوکر پاکستان نے صرف سات اضلاع میں ڈیڑھ لاکھ ریگولر آرمی تعینات کی ہے، ایف سی، پولیس اور لیویز اس کے علاوہ ہیں۔ ہماری طاقت نے ڈیڑھ لاکھ ریگولر کو صرف یہاں مصروف کی ہے۔ ہمیں اپنی قوم پر بھروسہ ہے اور اسی کی بدولت ہم مزید فوجیوں کو بلوچستان میں آنے پر مجبور کر رہے ہیں اور اس طرح ہمارے لئے انہیں نشانہ بنانا بھی آسان ہوتا جا رہا ہے اور بلوچ قوم کی مدد سے ہم اس قابض فوج کو اپنی ملک سے بھاگ نکالیں گے۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا ہماری جد و جہد ہماری کلاسیک اورجدیدتاریخ کے امتزاج اوراپنی مٹی سے اٹھنے والی تحریک ہے۔ یہ ایک مکملindigenous تحریک ہے۔ یہاں چین سمیت تمام بیرونی ملک اور سرمایہ کاروں کے خلاف ہماری جنگ ہے۔ چین کو معلوم ہونا چاہئے کہ بلوچستان میں ایک زندہ قوم آباد ہے۔ اگر چینی فوج ہمیں کچلنے کرنے کیلئے یہاں نیول بیس بناتی ہے تو انہیں بھی یاد رکھنا ہوگا کہ وہ کس ادوار سے گزرے ہیں۔ جاپان نے چین پر یلغار کیا تو چین نے جو Tactic استعمال کئے، آج ہم اکیسویں صدی میں ہیں اور ہم چین کے خلاف مزید سخت شکل میں سامنے آئیں گے۔ آج پاکستانی فوج بھی بلوچ قوم کا سامنا کرتے ہوئے سراسیمگی کا شکار ہے کہ اسے کیسے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ چین، پاکستان، پاکستانی پارلیمان پرست، ریاستی دلار، غدار اور جاسوسوں کیلئے بلوچستان میں کوئی جگہ نہیں۔ ریاستی مخبر وں کو کئی دفعہ تنبیہ کے باوجود وہ چند عارضی مراعات کیلئے ریاستی دم چھلے بن کر بلوچ خون بہا حاصل کر رہے ہیں۔ خون بہا حاصل کرنے والوں میں پارلیمان پرست سب سے آگے اور زیادہ گناہ گار ہیں۔ بلوچ قوم نے ان کی سزا مقرر کی ہے۔ جلد یا بدیر یہ اپنی منطقی انجام کو پہنچیں گے اور بلوچ قوم اپنی آزادی حاصل کرکے دنیا کے نقشے میں ایک دفعہ پھر ایک آزاد قوم کے طور پر اپنی حیثیت منوائیں گے۔
انہوں نے بلوچ قوم ، خصوصا بلوچ ڈائسپورا سے اپیل کی کہ وہ بلوچ قومی تحریک کی بھر پور مالی معاونت کریں اور بلوچ ڈائسپورا کو منظم کریں اور سفارتی بنیادوں پر متحرک ہوکر موثر کردار ادا کریں،تاکہ وہ دنیا اور عالمی اداروں سے خصوصی تعلقات استوار کرکے بلوچ قومی تحریک کی آبیاری میں ایک توانا کردار ادا کر سکیں۔