ڈیرہ غازی خان اور چاغی میں مماثلت
تحریر: نوروز لاشاری
دی بلوچستان پوسٹ کالم
ریاست پاکستان کی جانب سے چاغی میں 28 مئی کو ایٹمی دھماکے کیئے گئے، ان ایٹمی دھماکوں کا بارود یعنی یورینیم بلوچستان کے دوسرے حصے ڈیرہ غازی خان سے نکالا گیا، جہاں سے یورنیم اب تک نکالا جارہا ہے۔
چاغی اور ڈیرہ غازی خان میں مماثلت اس چیز کی ہے کہ ایک جگہ سے یورینیم نکالا گیا اور اپنے مقصد کا میٹریل نکال کر باقی ماندہ فالتو میٹریل پھینک دیا گیا، جو بارش کے پانی میں بہہ کر عام لوگوں کے بنے تالاب جوہڑ کے پانی میں شامل ہوتا ہے۔ جس سے کینسر سمیت دوسرے خطرناک امراض پیدا ہورہے ہیں۔ اسی طرح، دوسری جگہ چاغی میں ڈیره غازی خان سے نکالا گیا یورینیم استعمال کیا گیا، جس سے وہاں کے لوگ بھی کینسر سمیت دوسرے امراض کا شکار ہورہے ہیں۔
دوسرا مسئلہ، کینسر ہسپتال کا ہے۔ ڈیره غازی خان میں کینسر کے مریض کو سیدھا ملتان کے ہسپتالوں میں لے جایا جاتا ہے، وہاں تک وہ جانبر نہیں ہوسکتا۔ اس طرح کی حالت چاغی کی بھی ہے، جہاں قریبی علاقوں میں کوئی کینسر کا ہسپتال موجود نہیں اور مریض جانبر نہیں ہوسکتے اور غریبوں میں اتنی مالی سکت بھی نہیں ہوتی کہ وہ علاج کیلئے بڑے شہروں کا رخ کرسکیں۔
تیسری مماثلت یہ ہے کہ بلوچ قوم چاغی کی طرح ڈیرہ غازی خان کے کینسر کے مریضوں اور دوسرے مسائل پر بلکل خاموشی اختیار کر چکی ہے، ایک طرف خاندان خطرناک امراض کی وجہ سے ختم ہورہے ہیں اور دوسری طرف بلوچ قوم کو ان مسائل کا ادراک بھی نہیں ہے۔
نیز ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچ عوام کو چاغی ڈیرہ غازی خان کے حالات پر برابر بات کرنی چاہیئے۔ تاکہ قوم کے ہر فرد کو اپنوں کے ساتھ گذرنے والے مظالم کا علم ہوسکے۔