معذرت میری بہن جلیلہ حیدر – چاکر زہری

434

معذرت میری بہن جلیلہ حیدر

تحریر: چاکر زہری

(دی بلوچستان پوسٹ کالم)

میری بہن، آپکی یہ کوشش اور کاوش قابل ِ ستاٸش ہے۔ میں بذات خود اس کو ایک مردانہ اور دلیرانہ عمل سمجھتا ہوں، کہ ہزارہا لوگوں کے ہوتے ہوئے آپ جیسی بہن کا آواز بلند کرنا یقیناً ایک غیر معمولی کام ہے۔ جہاں تک ہمت اور حوصلے کی بات ہے وہاں آپ بہن کی ہمت اور حوصلے میں کوٸی کمی نہیں۔ پاکستان جیسے بے داد اور نا انصاف ملک میں انسانیت کے تحفظ اور بقا کے لیے آواز اٹھانا میرے خیال میں حقیقی معنوں میں خدمت ِانسانی ہے، میں جب بھی آپ کو سوچتا ہوں، تو ایک طرف خوشی ہوتی ہے اور دوسری طرف غم اور دکھ ہوتا ہے، خوشی اس بات کا کہ اب بھی انسانیت کی خاطر دکھ اور غم برداشت کرنے والے انسان آپ کی شکل میں موجود ہیں، جو خود کو بھوک اور پیاس جیسی تکلیفوں میں ڈال کر حقوق ِانسانی کی بات کرتے ہیں، یقیناً ایسے لوگ بہت نایاب اور نادر ہوتے ہیں، جن کی قدر ہمیں آج تو نہیں مگر کل ضرور معلوم ہوتی ہے، جب وہ ہم سے بچھڑ چکے ہوتے ہیں۔ غم اور افسوس اس بات کا کہ میری بہن آپ ایسے مکار چالباز ملک میں حق اور انصاف کی بات کرتے ہیں، جہاں کبھی انصاف ہوا ہی نہیں، جہاں کسی کو حق ملا ہی نہیں، جہاں صدر اور وزرا صدر یحیٰ اور قاٸم علی شاہ کی طرح نشے میں دھت ہوں، تو ایک غریب کو کیا انصاف اور تحفظ ملے گی۔ جہاں صدر بھیڑیا صفت، وزیر لومڑی صفت ہوں وہاں ابن ِآدم کی کیا قدروقیمت ہوگی، وہاں بہتے خون کا کیا قدر ہوگا۔

جہاں بے دادی عروج پر ہو، جہاں روزانہ ہزاروں افراد فاقہ کشی کا شکار ہوں، وہاں آپ جلیلہ حیدر جیسی بہن کی بھوک کیا معنی رکھتی ہوگی، جہاں مشکے کا رہاٸشی معصوم لڑکا اپنے گمشدہ بھاٸی کی خاطر خودکشی کرتا ہو اور اسکا کوٸی پرسان ِحال نہ ہو اور ارباب ِاختیار کے کانوں پر جوں تک نہ رینگتی ہو۔ وہاں آپ جیسی بہن کی بھوک سے متوقع موت کیا معنی رکھتی ہوگی۔ جہاں گوادر کے باسی ایک بوند پانی کو ترس رہے ہوں، جہاں سردار ثنا اللہ کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے، اسکے علاقے زہری میں یونین کونسل ھادر کش کے باشندے جوہڑوں اور گندے نالوں سے پانی پینے پر مجبور ہوں، وہاں آپ جیسی ایک معصوم بہن کی پیاس کیا معنی رکھتی ہوگی۔ جہاں ماما قدیر، فرزانہ مجید، سمی اور مہلب سالوں سے بھوک ہڑتال پر بیٹھی ہوں، وہاں آپ کی پانچ روزہ ہڑتال کیا اہمیت رکھتی ہوگی۔

میری بہن نواب نوروز خان اور اسکے ساتھیوں کو قران کا واسطہ دے کر پہاڑوں سے اتارا گیا، پھر انہیں پانسی دے دی گی، جو قوم قران کا واسطہ دے کر پھر دھوکہ دے، اس قوم سے انصاف کی امید رکھنا، بڑی سادگی اور بھول ہے۔ میری بہن، یہاں حقوق اور انصاف جیسی شے موجود ہی نہیں۔ یہاں تو حقوق ضرب ِعضب نہیں بلکہ ضرب ِغضب اور رد الفساد کی صورت میں ملتے ہیں، یہاں حقوق گولیوں سے چھلنی لاشوں کی صورت میں ملتے ہیں۔ میری بہن یہاں انصاف اور حقوق کے خواہاں صبین محمود اور صبا دشتیاری کی شکل میں بے رحمی سے قتل کیۓ جاتے ہیں۔ یہاں عدل کے متلاشی شہید غلام محمد، شیرمحمد اور لالا منیر عدالت سے اغوا کیۓ جاتے ہیں۔ پھر انہیں انصاف سینے پر گولیوں کی صورت میں ملتا ہے۔ یہاں وہ انصاف ہوتا ہے جو شازیہ مری اور زرینہ مری کے ساتھ کی گٸ۔ میری بہن یہاں تحفظ اور حقوق نہیں بلکہ بمب بارود گولیاں ملتے ہیں۔ یہاں وہ انصاف ملتی ہے جو کمسن یاسمین کو گولیوں کے بوچھاڑ کی صورت میں ملی، یہاں وہ انصاف ملتی ہے، جو بلوچوں کو 70 سالوں سے اغوا نما گرفتاری، لاپتہ ہونے، گھر جلانے اور لاشیں ملنے کی صورت میں ملتی ہے، میری بہن مجھے پتا ہے کہ اس ملک میں درندہ صفت انسان رہتے ہیں، یہاں انصاف نہیں یہاں اخلاق نہیں، یہاں تہذیب نہیں لیکن آپ اپنی اس کار ِخیر سے پیچھے نہیں ہٹنا، مایوس نہیں ہونا بلکہ ہمت اور حوصلے سےآگے بڑھنا کیوں کہ جب حق آتا ہے تو باطل چلا جاتا ہے اور فتح ہمیشہ حق اور سچ کی ہوتی ہے۔