سعودی عرب: 2020 تک معیارِ زندگی کی بہتری کےلئے 13 ارب ڈالر مختص

180

سعودی بادشاہت میں حالیہ مہینوں میں کئی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں جن میں سینما گھروں کا  کھلنا اور موسیقی کی تقربیات کا انعقاد، تفریحی مقامات پر عورتوں کو جانے کی اجازت دینا اور ان کے ڈرائیونگ کے حق کو تسلیم کرنا شامل ہیں۔

سعودی عرب لوگوں کے معیار زندگی کو جدیدیت میں ڈھالنے اور انہیں کھیل اور تفریح کی سہولتیں مہیا کرنے کے اپنے پروگرام پر سن 2020 تک 50 ارب سعودی ریال یعنی 13 ارب ڈالر سے زیادہ رقم صرف کرے گا۔

جدید دور کی جانب پیش رفت سے متعلق ولی عہد محمد بن سلمان کے اس پروگرام کے تحت یہ فنڈز تفریح، صحت، کھیل اور تعلیم کے فروغ پر خرچ کیے جائیں گے۔

 دارالحکومت ریاض میں ہونے والی ایک تقریب میں جنرل انٹرٹینمٹ اتھارٹی کے چیئر مین احمد خطیب نے بتایا کہ اس پروگرام کے ذریعے، جسے زندگی کے بہتر معیار کا نام دیا گیا ہے، سن 2020 تک روزگار کے تین لاکھ نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ روزگار کے زیادہ تر مواقع جنرل سپورٹس اتھارٹی کے ذریعے فراہم ہوں گے۔

سعودی بادشاہت میں حالیہ مہینوں میں کئی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں جن میں سینما گھروں کا کھلنا اور موسیقی کی تقربیات کا انعقاد، تفریحی مقامات پر عورتوں کو جانے کی اجازت دینا اور ان کے ڈرائیونگ کے حق کو تسلیم کرنا شامل ہیں۔

سعودی معاشرے میں آنے والی ان تبدیلیوں کو ملک کے اندر اور باہر سے سراہا جا رہا ہے۔

سعودی عرب کی سخت معاشرتی روايات اور تیزی سے ترقی کے نتیجے میں ایک ایسی قوم وجود میں آئی ہے جہاں کمیونٹی کو بہت قدرو منزلت دی جاتی ہے، لیکن اس معاشرے میں عوامی اجتماعات کے مواقع بہت محدود ہیں۔ کھیل اور تفریح کے مواقع محدود ہونے کی وجہ سے سعودی عرب میں موٹاپے کا تناسب بہت زیادہ ہے۔

سعودی شہریوں کو ووٹ کا حق حاصل نہیں ہے اور تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی مسلسل گر رہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے برسوں میں معاشی شعبے میں کئی نئے پہلو سامنے آ سکتے ہیں۔ اس پس منظر میں زندگی کے معیار کو بہتر بنانے کی کوشش سیاسی استحكام یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔

اس سلسلے میں ریاض میں ہونے والی تقریب میں فرانس کے ریٹائرڈ فٹ بالر تھیری ہنری، امریکی اداکارہ کیٹی ہولمز اور برطانوی اداکار ادریس ایلبا بھی شریک ہوئے۔

شمشیر زنی کو کھیل کے طور پر اپنانے والی سعودی خاتون لبنا العمیر نے حاضرین سے کو بتایا کہ جب وہ بیرون ملک اپنی ماسٹر ڈگری کر رہی تھیں تو اس زمانے میں انہیں سائیکل چلانا اور عجائب گھر دیکھنا پسند تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب وہ واپس آرہی تھیں تو انہیں یہ خوف تھا کہ اب وہ اپنا یہ شوق جاری نہیں رکھ سکیں گی۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں آنے والی تبدیلیوں سے انہیں خوشی ہوئی ہے اور اب وہ اپنے شمشیر زنی کے کھیل کو جاری رکھ سکیں گی۔