بلوچ قومی تحریک اور ہمسایہ اقوام
تحریر: نادر بلوچ
۱۹۴۸ میں جب پاکستان سامراجی سازشوں کے بدولت معرضِ وجود میں آیا، تو پاکستان نے کشمیر پر قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان پر بھی بزور طاقت فوج کشی کرکے بلوچ وطن پر قابض ہوا۔ بلوچ قوم نے پاکستان کے ساتھ ایک مسلم ریاست کی حثیت سے اچھے تعلقات کا عندیہ دیا تھا، مگر پاکستان کی مکار قیادت نے بلوچ قوم کی امن کی خواہش کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔ بلوچستان کی سرزمین جغرافیائی اور معدنی وسائل نے پنجاب کی لالچی اور حریص قیادت کو انسانی غلامی کو طول دینے کا جواز فراہم کیا۔ بلوچ سیاسی قیادت نے پاکستان اور اسکے مستقبل کو بھانپ کر ایک واضح لائحہ عمل، آزادی کو ہی بلوچ قوم اور دیگرمظلوم و محکوم اقوام کی نجات کا واحد ذریعہ قومی آزادی کو ہی خوشحالی اور امن کا ضامن قرار دیکر قومی تحریک کو منظم کرنا شروع کردیا۔
بلوچ قوم ایک سیکولر اور ترقی پسند قوم ہونے کی وجہ سے ہمیشہ اپنے ہمسایہ اقوام سندھی اور پشتون اقوام سے برادرانہ تعالقات کو فوقیت دیتا آیا ہے۔ بلوچ سیاسی قیادت کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ بلوچ قوم کی طرح دیگر اقوام بھی پاکستانی ظلم و جبر سے نجات کیلئے میدان عمل میں واضح موقف کے ساتھ قومی نجات اور قومی سوال کے تاریخی جوڑت کو بحال کرنے کیلئے ایک دوسرے کی مدد و کمک کریں۔ تاہم بلوچ قوم نے اپنے واضح موقف ہونے کی وجہ سے دوسری اقوام کی جانب سے واضح حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے اپنی تاریخی جہد میں کبھی رکاوٹ بننے نہ دی۔ بلکہ جب بھی بلوچ سیاسی قیادت نے پشتون اور سندھی قوم پرستی کی تحریک میں ابھار محسوس کی تو غیر مشروط طور پر انکی حمایت کی۔ بلوچ قومی تحریک دنیا کے دیگر اقوام کی تحریکوں کو سیاسی و سائنسی بنیادوں پر پرکھتی اور تجزیہ کرتی ہے۔ کامیابی اور ناکامیوں سے سیکھتی ہے،غلام اور مظلوم قوموں کی عالمی سطح پرجاری تحریکوں کی حمایت کرتی رہی ہے۔ بحثیت تاریخی حق، اقوام متحدہ کی جانب سے اشاعت شدہ عالمی قوانین کے عین مطابق بلوچستان میں جاری تحریک آزادی بھی انہی خطوط پر استوار ہے۔
بلوچ سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتیں بھی اقوام عالم اور دیگر امن و آزادی پسند اقوام سے سیاسی اور اخلاقی حمایت کی امیدوار رہی ہے۔ جنوبی ایشاء میں بسنے والے اقوام سے بلوچ قوم کی ہزاروں سالہ تعلق کی بنا پر بلوچ قومی تحریک بھی یہاں ہونے والی سیاسی اور سماجی تبدیلیوں سے خود بھی اثر انداز ہوتی رہی ہے۔ خطہ میں جاری دیگر اقوام کی تحریکوں کی ایک دوسرے سے تعلق اور اثرات رہی ہیں۔ آج جتنی سامراجی قوتیں متحد ہوئی ہیں بلکل اسی طرح مظلوم و محکوم اقوام کی تحریکیں بھی ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی، مدد و کمک اور رہنمائی کیلیے یکجا ہو کر یا الگ رہ کر بھی ایک دوسرے کی اخلاقی حمایت کی ضرورت ہے۔
بلوچ قومی تحریک ایک تسلسل کے ساتھ ۷۰ سالوں سے ایک ایسے غیر مہذب دشمن سے نبرد آزماء ہے۔ جس نے اس نہتے اور مظلوم بلوچ قوم پر انسانی اقدار اور عالمی انسانی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، ہر ان مظالم کی انتہاء کی ہے جنکی مثال مہذہب دنیا میں نہیں ملتی۔ جبری گمشدگیوں، سول آبادیوں پر حملوں میں ہزاروں بچوں، عورتوں اور بزرگوں کی ہلاکتیں،کیمیکل ہتھیاروں کا استعمال، ایٹمی تجربوں کی لیئے بلوچ سرزمین کا استعمال کرکے تابکاریوں سے کینسر جیسے موذی امراض کا پھیلاو، بلوچ قوم کو خشک سالی اور بھوک و درد کے حوالے کرنے کے باوجود بلوچ قومی تحریک ایک مظبوط اورموثر تحریک ثابت ہوچکی ہے۔ جسکی وجہ سے خطہ میں موجود دیگر اقوام اور قومپرست تحریکوں کے لیئے حوصلہ افزائی کا سبب بن رہی ہے۔ یہ بلوچ قومی قیادت اور سیاسی کارکنوں کی جیت ہے کہ انکی قربانیوں اور جہد آج دنیا کی دیگر اقوام کی لیئے بھی اپنے حقوق اور آزادی کی جہد شروع کرنے کا جواز پیدا کر رہی ہے۔
پشتون قوم بھی پاکستانی استحصالی پالیسیوں کا شکار رہی ہے۔ مذہبی آلودگی کے ذریعہ جس طرح ہزاروں نوجوانوں کو پنجابی فوج نے ڈالر کمانے اور سیکولر افغانستان کو چار دہائیوں سے لاکھوں ہلاکتوں کے ذریعہ بلوچ قوم اور افغانوں کو زیر کرنے کے لیئے استعمال کیا۔ بلوچستان میں جاری فوجی آپریشنوں میں فرنٹیئر کانسٹیبلری جیسی فوجی اداروں میں بھی پنجابی پشتونوں کو استعمال کر رہے ہیں، جبکہ پنجابی فوج فاٹا اور پختونخواہ میں بھی ہزاروں افراد کو جبری گمشدگیوں، غیرعدالتی قتل، بمباری سے ہلاک کر چکی ہے۔ ایسے میں ریاستی جبر، بربریت، ظلم و جبر کے شکار اقوام کا ایک دوسرے سے نزدیکی ایک فطری عمل اور وقتی ضرورت ہے۔
پشتون قومپرستی اور تحفظ کی تحریک آج بلوچ قوم کی ستر سالہ موقف کو درست ثابت کر رہی ہے۔ بلوچ قوم کی آزادی کو جواز، حق اور جائز اور مظبوط کر رہی ہے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے جس نے دہشتگردی کو ریاستی پالیسی بنا کر ہمسایہ ممالک اور مظلوم اقوام کے خلاف استعمال کررہی ہے۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے مطالبات اور مشکلات وہی ہیں، جو بلوچ قوم ستر سالوں سے سہہ رہی ہے۔ بلوچ قوم کے چالیس ہزار سے زیادہ نوجوان آج ریاستی عقوبت خانوں میں ہیں۔ ہزاروں شہادتیں اور قربانیاں بلوچ قومی تحریک کا اثاثہ ہیں۔ پشتون قوم جن انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھا رہی ہے۔
بلوچ سیاسی کارکن اگر آج پشتون قومی تحریک کی حمایت کر رہے ہیں، وہ سوچ سمجھ کر سیاسی حکمت عملی کے طور پر کررہے ہیں۔ پاکستان میں اٹھنے والے انسانی حقوق کی تحریک و چاہے آزادی کے لیئے کوئی مظلوم قوم آواز اٹھاتی ہے۔ انکی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے۔ بعض لوگ نہ جانے اس سے کیوں خوفزدہ ہو رہے ہیں اور سیاسی کارکنوں اور بلوچ لیڈر شپ کو روایتی تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ سیاسی تنظیموں پر یقین رکھنے والوں کو سیاسی عمل پر بھی یقین رکھنا ہوگا۔ قلمی ناموں سے تنقید برائے تنقید کرنے والوں سے کوئی کس پلیٹ فارم پر بحث نا کرے، ایسے قلمی ناموں کی تنظیمی وابستگی معلوم نہیں ہوتی ہے۔ سیاسی محاذ پر اختلاف کی صورت میں تنظیمی یا حقیقی نام ہی اگے آئیں تاکہ مثبت بحث و مباحثہ ہو۔