بلوچ جہد کے خلاف پروپیگنڈے کے ہتھیار کا استعمال – بشام بلوچ

250

بلوچ جہد کے خلاف پروپیگنڈے کے ہتھیار کا استعمال

تحریر : بشام بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم 

دنیا میں جہاں کہیں بھی سیاسی تحریکیں سر اٹھا چکی ہیں، انکی کامیابی و ناکامی سے اسباق تاریخ کی اوراق بھرچُکی ہیں اور اسی تاریخ کی ورق گردانی سے ہمیں مضبوط تنظیموں ہی کے اذکارکثرت سے ملتے ہیں۔ ایسی تنظمیں ہی اپنی مظبوطی سے اپنی حیثیت منوایا کرتی ہیں اورقومی و سیاسی شعور کو اجاگر کرتے ہوئے اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے کمر بستہ ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔

آج کے اس ترقی یافتہ دور میں دنیا میں (achieving power) کامیابی کی بنیادی طاقت تنظیم ہی ہوتے ہے، قابض کے تشدد کو مقبوضہ قوم کی مضبوط پارٹی ہی اپنے حق میں استعمال کر سکتی ہے، “”۔فینن کہتے ہیں کہ شعور کی بیداری کے دوران نو آبادیات میں قتل عام شعور اور بڑھاتا ہے۔” اسی طرح قابض کے تمام حربے جو کہ محکوم کو کچلنے کیلئے ہوتے ہیں، ایک مضبوط تنظیم ان حربوں کو خود قابض کے خلاف استعمال کر سکتی ہے اور قابض کی بے رحمانہ طاقت خود اسکی شکست کا موجب بنتی ہے۔ قابض کا تشدد لاشعوری طور پر ایک ایسی پختہ و تجربہ کارنسل کر رہی ہوتی ہے کہ جسے تمام سخت حالات سے نبرد آزما ہونے کا شعور حاصل ہوتا ہے۔ ہر دور میں جہاں بھی شعوری پختگی کا عمل پروان چڑھ جاتی ہے، وہاں پر کامیابی بھی اس شعوری جہدوجہد کی ہوجاتی ہے اور شکست قابض کی مقدربن جاتی ہے۔

ان تمام باتوں کے پیش نظر قومی تحریک کی رہنمائی کرنے والی تنظیموں و پارٹیوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بلوچ قوم سے حاصل کردہ قومی طاقت کو بلوچ سرزمین کی آزادی کیلئے صرف کریں اور اپنی قومی طاقت کو یکجاہ کرنے کیلئے ان میں اتحاد و اتفاق کا ماحول پیدا کریں تاکہ انہیں منتشر ہونے سے بچایاجاسکے اور اپنے مقبوضہ خطے میں قتل غارت و نسل کشی، جو قابض کی جانب سے تسلسل کیساتھ شروع ہو چکی ہے، اسکا مقابلہ کرنے کیلئے کوئی حکمت عملی ترتیب دیکر مشترکہ طور پہ دشمن کے خلاف متحد ہو کر، جدوجہد کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپسی کھینچاتانی و ایک دوسرے کیساتھ دست و گریباں ہو کر یہ اپنی قوت کھو دیں۔

آ ج بلوچ سیاست میں آپسی رسہ کشی کے ماحول کو دیکھ کر ہرذی شعور سیاسی کارکن برسرپیکار تنظیموں و پارٹی کارکنان میں تربیت کے فقدان کو آسانی سے محسوس کر سکتا ہے، تربیت کی کمی کسی بھی تحریک کیلئے نیک شگون نہیں ہوتا بلکہ انہں مزید زوال کی جانب لے جاتی ہے کیونکہ کارکنان کسی پارٹی میں اپنا کردارادا کرکے تحریک کیلئے عوام کو مستقل طور پر متحرک کر سکتے ہیں، اس لیئے کارکنان کی تربیت انتہائی ضروری ہے۔

اگر ہم بلوچ تحریک کے طرف ایک نظر دوڑائیں، تو ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ بد قسمتی سے یہاں ایک عجیب ماحول تشکیل پاچکا ہے، سیاسی اختلافات کے نام پر ہم خود اپنے قوت کے خلاف متحرک ہو کر خود کو کمزور کر رہےہیں، دوسری طرف قابض کی طرف سے نام نہاد سرداروں اور میروں کو سیاست کا باگ ڈورسونپا گیا ہے تاکہ کسی بھی طور پرتحریک کے صفوں میں ایسا تضاد پیدا کیا جاسکے کہ بلوچ قومی تحریکِ آزادی کمزور ہوسکے۔ جہاں اسے مکمل ختم کرنا آسان ہوجائے، میڈیا سمیت سیاسی کارکنان کیلئے گراؤنڈ تنگ کرنے کیلئے ریاست نے ڈیتھ اسکواڈز تشکیل دیئے ہیں۔ چاہے وہ مشکے سے علی حیدر کی شکل میں ہو یا کہ وہ عالمی سرغنہ دہشتگرد شفیق مینگل کے روپ میں ہو یا کہ جاؤ آواران سے جمیل بزنجو ہو (یاد رہے جمیل بزنجو مقبوضہ بلوچستان کے موجودہ وزیراعلی قدوس بزنجو کے چھوٹے بھائی ہیں، وہ آواران جھاؤ میں پاکستانی آرمی کے سربراہی میں عالمی دہشتگرد تنظیم داعش کے کمانڈر ہیں تاکہ انکے ذریعے سیاسی کارکنان کو قتل کیا جاسکے)۔لیکن ریاست کی یہ پالیسی بھی اپنے مطلوبہ نتائج نہ دے سکی، تو ریاست نے اسکا متبادل طریقہ اپنا کر اپنے سابقہ کرداروں کو نظر انداز کرکے یا انہیں کے ساتھ ساتھ تحریک کے خلاف مختلف محاذ کھول کر پروپکنڈہ شروع کردیا کیونکہ پروپگینڈہ جو جنگوں کو جیتنے و عوامی نفسیات پر حکمرانی کرنے کےلیئے ہمیشہ موثر ترین اور جدید دور کا آسان ترین ذریعہ ہے، ریاست اپنے ناپاک منفی پروپیگنڈے کو بطورِ ہتھیار استعمال کرنے کیلئے الیکٹرانک میڈیا، سمیت سوشل میڈیا کا انتخاب کرکے قومی تحریک آزادی کے خلاف باقاعدہ سرگرم عمل ہے۔

پچھلے مہینے خضدار میں ریاست اور انکے پالے ہوئے ڈیتھ اسکواڈز کی طرف سے ایک نام نہاد پروگرام تشکیل دیا گیا تھا، جس میں کچھ نوجوانوں کو لیپ ٹاپ دیا گیا، دراصل لیپ ٹاپ دینے کا مقصد ایک ہی تھا، وہ سوشل میڈیا میں بلوچ جہد آزادی کے خلاف ان دیئے ہوئے لیپ ٹاپوں کو استعمال کریں، ورنہ لیپ ٹاپ واپس ضبط ہونگے۔ پاکستانی ریاست طرح طرح کے حربے بلوچ جہد آزادی کے خلاف استعمال کر رہا ہے لیکن مخلص بلوچ قوم اور مخلص بلوچ سپاہیوں کی قربانیوں کے بدولت ریاست شکست کھا چکی ہے، انشاللہ وہ بھی جلد شکست تسلیم کرنے والا ہے۔