ایٹمی دھماکے نظریات کو شکست نہیں دے سکتے – ساچان بلوچ

439

ایٹمی دھماکے نظریات کو شکست نہیں دے سکتے

ساچان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

دنیا میں ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں، پہلا مثبت اور دوسرا منفی۔ دنیا میں ایٹم بم بنانے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ دنیا میں امن قائم ہو لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے کہ عالمی سامراجیوں نے دنیا میں اپنی بالادستی کو قائم رکھنے کےلیئے ایٹم بم کو بطور ہتھیار استمعال کیا۔ امریکا نےجاپان پر 9 اگست اور11اگست کو بالترتیب ہیروشیما اور ناگاسا پر ایٹمی بم گرائے۔ ان دھماکوں کے نتیجے میں بے شمار بے گناہ لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔ ناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بم کے نتیجے میں کم از کم 74 ہزار افراد ہلاک ہوئے اور ہیروشیما پر گرائے جانے والے ایٹمی حملوں میں کم از کم 1لاکھ 40 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔

آج تک ہیروشیما اور ناگاساگی میں بچے پیدا ہونے کے وقت تندرست حالت میں نہیں ہوتے اور وہاں کی زمینوں پر فصلیں نہیں اگتے، وہاں کی زمینیں بنجر ہوگئیں ہیں، ایٹمی دھماکے اگر کسی جگہے پر کیئے جائیں، تو وہاں صدیاں گذرنے کے بعد بھی انسانی ذات متاثر ہوتی ہے۔ ان دھماکوں کے ذریعے امریکا نے یہ ظاہر کیا ہے کہ امریکا جیسے سرکش ریاستیں اپنی طاقت ظاہر کرنے کےلیئے کس قدر وحشت کا اظہار کرسکتے ہیں۔ اسی طرح امریکا نے ایک اور ریاست ویتنام کے انقلاب کو کچلنے کے لیئے کیمیائی ہتھیاروں کا استمعال کیا لیکن ان کا مقابلہ ایک ملک سے نہیں بلکہ ایک قوم سے تھا۔ جنہوں نے صدیوں سے اپنے گلزمین کےلیئے عظیم قربانیاں دیکر، اسکی لاج رکھی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ قوموں کو شکست نہیں دی جاسکتی، آج جاپان جیسے ریاست نےجدوجہد کر کے خود کو ترقی یافتہ ممالک میں شامل کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایٹمی دھماکہ نظریات کو شکست نہیں دے سکتی، بالکل اسی طرح ایک اور سامراجی ریاست پاکستان نے بلوچستان پر 27 مارچ 1948 کو جبری طور پر قبضہ کیا، اسی قبضہ کے ہی دن سے بلوچستان پر پاکستان کا جبر بڑھتا رہا۔ جب 11 اور 13 مئی 1998 کو پاکستان کے حریف انڈیا نے پانچ ایٹمی دھماکے کیئے، تو یہ پاکستان کے لیئے ایک چیلنج تھا کہ وہ ایٹمی دھماکوں کے زریعے بھارت کا جواب دے اور اسی وجہ سے پاکستان نے 28 مئی 1998 کو ضلع چاغی کے راسکوہ نامی پہاڑ کے سینے پر ایٹمی تجربات کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہمارے پاس بھی وہ ہتھیار ہیں، جس سے امریکا نے جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی کے لاکھوں لوگوں کو لقمہ اجل بنادیا اور لاکھوں انسانوں کو جسمانی اور ذہنی طور پر معذور کردیا۔

یہ ایک حقیقت ہےکہ پاکستان نے جس وقت چاغی پر ایٹمی تجربات کیئے، وہاں 20 کلو میٹر کے فاصلہ پر آبادی تھی، جبکہ اقوام متحدہ کے قانون کے مطابق ایٹمی تجربات وہاں ہوں، جہاں 200 کلو میٹر تک آبادی نہ ہو لیکن پاکستان نے ہمیشہ کی طرح اقوام محتدہ کی قوانین کی دھجیاں اڑادیئے، جس کی وجہ سے آج تک چاغی کے لوگ جسمانی طور پر معذور ہیں اور آج تک ریاست پاکستان نے تابکاری اثرات کا جائزے کے لیئے ایک ٹیم بھیجنے کی زحمت نہیں کی اور نہ ہی علاقے کے لوگوں کے لیئے اسپتال تعمیر کیئے اور وہاں کے لوگوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ انہیں تابکاری کے اثرات کی وجہ سے پورے علاقے میں طرح طرح کی بیماریاں، مثلاً کینسر یرقان اور اپنڈکس جیسی بیماریاں عام ہوئی ہیں۔ جس کے وائرس کے اثرات سے آنے والی ہر نسل ایٹمی دھماکوں کو بددعا دیتی رہےگی۔ جو شائد اس حکومت کی نشانی ہے۔

انسانی صحت کا یہ حال ہےکہ اکثر آبادی اس سے متاثر ہے، نوشکی اور خاران تک اس کے اثرات پھیلے ہوئے ہیں، بیشتر لوگوں میں جلد کے بے شمار امراض خارش پھوڑے اور جلد کی خشکی، بالوں کا گرنا عام بات ہے اور آج پورا چاغی مسائلستان کا منظر پیش کررہا ہے اور 28 مئی 1998 وہ سیاہ دن ہے، جس دن پاکستان بلوچوں کی لاشوں پر پاوں رکھ کر یوم تکبیر کے نام پر جشن مناتا ہے۔ کسی بھی ایٹمی دھماکے پر جشن منانا، ہیروشیما اور ناگاساگی کے مثاثرہ عوام کی توہین ہے۔ ہیروشیما اور ناگاسا کی عوام کی سیدھی سادی توہین ہے۔ پاکستان نے خود کو مضبوط دفاع کا حامل ملک قرار دینے کے لیئے انسانی اقدار کی دھجیاں اڑا دی ہیں، لیکن پاکستان نے جس جگہ پر دھماکے کئے وہاں کے لوگوں کی حالت زار تک پوچھنا گوارہ نہیں کیا، ضلع چاغی میں ابھی تک سوائے دالبندین کے دوسرے شہروں میں پانی بجلی تک میسر نہیں۔

پاکستان نے بلوچستان پر ہر طرح کے ظلم کیئے، ان ظلموں اور ناانصافیوں کی فہرست طویل ہے، ہر طرح کی ریاستی ہتھکنڈے اپنائے لیکن بلوچ جہد کاروں نے دشمن کے ہر ظلم کاڈٹ کر سامنا کیا اور یہ ثابت کیا ہے کہ ہم بحثیت بلوچ قوم آزادی کے فیصلے سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے اور اپنی جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کریں گے۔