انقلاب کی آڑ میں ذاتی مفادات
تحریر : جلال بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم
کسی بھی تحریک کے لیئے سیاسی پختگی اشد ضروری ہوتا ہے، جس پر ہرمثبت و انقلابی تبدیلی کو انقلاب کہتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ایک تحریک کا ابھر کر انقلاب برپا کرنا بلکل بھی آسان کام نہیں ہے، کیونکہ انقلاب کیلئے تمام تر منفی اعمال کا گلا گھونٹ کر چلنا ہوتا ہے۔ ان تمام منفی اعمال کا جو آپ کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں۔ آپ کے ذاتی خواہشات اور فرسودہ رسومات کے اثرات ہوتے ہیں۔ اگر ہم خود کو انقلابی کہنے میں فخر محسوس کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں فرسودہ سوچ و رسوماتی، سوچ و نظام رائج کرنے کے بجائے سائنسی طریقہ کار کے تحت انقلاب برپا کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر جاکر مختلف مرحلوں کو عبور کرکے ایک اعلیٰ انقلابی کہنے کے حق دار ہوتے ہیں، اگر دیکھا جائے بلوچ تحریک میں بہت سے ایسے پہلو ہیں، جس پر تنقید کرنا ہر اس انقلابی کارکن پر فرض بنتا ہے، جو ایک خونریز تحریک کا حصہ بنا ہوا ہے۔ جس کے لیئے وہ کارکن اپنی جان و مال اپنے زندگی تک کا قربانی دے چکا ہے۔ مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ اپنے آپ کو ایک تصوراتی و مصنوعی انقلابی بنا کر انقلاب کی تمام تر ضرورتوں کو پس پشت ڈال کر ایک خالی خولی انقلابی دائرے سے نکلنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔
اگر ہم ایک نظر بلوچ قومی تحریک کے ان ناموں پر غور کریں، جن کو بلوچ عوام کا تصوارتی لیڈر سمجھا گیا ہے، جو مرتے دم تک اپنے فرسودہ خیالات، رسومات، ذات پات، انا اور خود غرضی سے باہر نہیں نکل چکے ہیں، جن کی زندگی اور آنے والی اس دورانیہ کی نسلیں تک ادھورے انقلابی یا قبائلیت کے روح سے باہر نہیں نکل چکے ہیں۔ تو بھلا یہ لیڈری کے کیسے دعوے دار ہیں؟ یا کس کے لیڈر ہیں؟ مگر بے شعوری کی انتہاء یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی بلوچ قوم ایک ادھوری انقلابی تحریک چلانے پر مجبور ہے۔ جس میں منفی سوچ غیر انقلابی رسومات کا بول بالا ہے، مگر ابھی تک بلوچ سیاست میں وہ تمام لیڈر کہلاتے ہیں، جو اپنی ذات کے ایک بدبودار جھونپڑی میں قید ہیں۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ بلوچ قوم کے ایسی فرسودہ و منفی سوچ وذہنیت کی وجہ سے یہ آج بھی لیڈری جیسے رتبے پر فائز ہیں۔ کم عقل کارکن آج بھی ان پر اندھا دھند بھروسہ کرکے بلوچ قوم کے تمام نوجوانوں اور انقلابیوں کے کیلئے سوالیہ نشان ہیں۔
یہ بات کہنا میں اپنے لیئے فرض سمجھوں گا کہ جو آج تک اس خام خیالی کے مرض میں مبتلا ہیں، وہ جلد اس حقیقت سے آشنا ہوکر خو سمجھ لینگے، ایک تلخ مقام پر کہ ہم کہاں اور کس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کیونکہ ان سے پہلے میں اور مجھ جیسے کئی اسی خوش فہمی اور مرض میں مبتلا رہ چکے ہیں۔ مگر آج کون سنے گا اور سمجھے گا، سب اپنے اندر کی میں کو ختم کرنے میں ناکام دِکھائی دے رہےہیں، جو ایک غیر سیاسی اور غیر انقلابی کے ساتھ ساتھ بے شعوری کی نشاندھی کرتا ہے۔
ٹھوس اور سائنسی بنیادوں کو نظر انداز کر کے محض خیالی اور اندھے پن میں کسی کے پیچھے کچھ مراعات کیلئے بھاگنا سیاسی کارکن کے بجائے چاپلوس اور ملاذم بن جانا، ایک انقلابی کے شان و شوکت کے خلاف ہے۔ تو ایسے لوگ آخر کار تذبب اور انتشار کا شکار رہیں گے۔ جس طرح آج کا نظام شکار ہے۔ جو عوام کو ایسی باتوں سے گمراہ کرتے ہیں، جس سے وہ حقیقت تک نہ پہنچ سکیں، جبکہ اصل میں وہ جانتے ہیں کہ یہ ممکن ہے۔ عوام کو بھی اپنی کوشش خیالی اور رسمی اندازوں کے بجائے ٹھوس سائنسی بنیادوں پرلانا اور کھڑا کرنا تحریک کی ضرورت ہے۔ ایسے اصولوں کی بنیاد پر کرنے کی ضرورت ہے جب تک انقلابی، سیاسی، سائنسی اصولوں کے بنیاد اور سوچ پر عوام اور کارکنوں کی ذہنی تربیت نہیں ہوگا، اس وقت تک پھر تحریک کی کامیابی ممکن نہیں ہوگی۔ ہمیں چاہیئے، اب کم از کم ہم اندھے پن کی دنیا سے نکل کر حقیقت پسند بن کر حقیقت کو بلا جھجک تسلیم کریں۔