کنا ہنینا دلجان
تحریر : نثار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ : کالم
آج میں پہلی بار کچھ لکھنے کو کوشش کررہا ہوں اور وہ بھی ایک ایسے شخص کے لیئے جس کے لیئے میرے یہ الفاظ بہت کم پڑھ جائینگے، جس کے لیئے میں پوری زندگی بیٹھ کر لکھ لوں، تو بھی کم ہونگے، یہ وہ سنگت ہے جو مجھے ہر وقت کہتا کہ کچھ لکھو، اپنے گل زمین کے بارے میں، یہاں بسنے والے باسیوں کے بے بسی کے بارے میں، اس ڈغار پے راج کرنے والے سرداروں کے فرسودہ نظام کے بارے میں یا اپنے شہید سنگتوں کے لیئے کچھ الفاظ لکھ لو لیکن اس وقت میں زیادہ توجہ نہیں دیتا لاپرواہی کرتا، مگر آج میں کچھ لکھنے جارہا ہوں، افسوس! آج کہ دلجان میرے ٹوٹے الفاظ دیکھ سکتا، میرا حوصلہ افزائی کرسکتا، میں اسے دیکھا سکتا کے آج میں اسکے بتائے ہوئے راستے پر عمل کر رہا ہوں، صرف میں ہی نہیں بلکہ اور کئی سنگت اسکے دیکھائے ہوئے رستے پر چل کر اسکے پیغام کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
آج میں لکھ رہا ہوں اپنے استاد، اپنےعظیم سنگت کے بارے میں جسے ہم ضیاء بلوچ عرف دلجان کے نام سے جانتے ہیں، یہ پہچان، یہ نام، یہ سنگت اب زندگی بھر میرے ساتھ رہینگے۔ میری رہنمائی کرتے رہینگے، مجھے حوصلہ دیتے رہینگے۔ جس نے کچھ ہی پل میں مجھے سکھایا کے زندگی کا سفر کس ڈگر سے ہوکر نکلتا ہے، جس نے انگلی پکڑ کر دکھایا کہ اس زندگی کی حقیقت کیا ہے، آج اس ہی سنگت کے متعلق چند یاداشتیں قلم بند کرنا چاہونگا۔
میرا ایک سنگت جو کہ مجھے اپنا چھوٹا بھائی سمجھتا تھا، ہم دونوں ایک ہی سوچ و فکر کے مالک تھے، ہمارے دل و جان میں صرف لمہ وطن کی آزادی کا خیال تھا۔
ہر کچاری و مجلس میں لمہ وطن کی باتیں کرتے اور دونوں اپنی رائے پیش کرتے، میرا سنگت جو کہ میرے سوچ و فکر سے خوش ہوتا، اندر ہی اندر مجھے تیار کرتا رہا، محنت کرتا رہا اور مجھے اپنے ایک عظیم سنگت دلجان سے ملوانا چاہتا تھا، اس سنگت نے سنگت دلجان کو میرے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا اور دلجان تھا ہی ایسا، کہیں سے بھی اسے محبت کی خوشبو آجاتی وہ پہنچنے میں دیر نہیں کرتا تھا۔
کچھ دن بعد وہ سنگت مجھے سنگت دلجان سے ملنے کا بولا، پہلے تو میں گھبرا گیا کہ سنگت مجھے کس شخص سے ملوانے جارہا ہے؟ کون ہے وہ؟ میں کبھی تصور نہ کر سکا تھا کہ مادر وطن مجھ پر اتنی مہربان ہوگی کہ مجھے بھی آواز دے گی، اسی لیئے ایک ڈر سا تھا کہ کون ہوسکتا ہے، جو اس قدر رازداری میں ملنا چاہتا ہے، پھر آہستہ آہستہ اس سنگت نے مجھے حوصلہ دے کر سب کچھ سمجھا دیا، تو میں سنگت دلجان بلوچ سے ملنے کو راضی ہوگیا، اس دن میرا دوست کام کے سلسلے میں کہیں دور چلا گیا تھا لیکن مجھ سے رابطہ میں تھا اور مجھے شہر سے تھوڑے سے فاصلے بہتی ندی کے پاس انتظار کرنے کا کہا، میں اس سنگت کے بتائے ہوئے جگہ پر چلا گیا اور شھید دلجان کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ اس وقت میرے دل میں کئی باتیں، کئی سوالات آرہے تھے اور پاؤں کانپ رہے تھے، پہلی مرتبہ اپنے وطن کے ایک جہد کار سے ملنے جارہا تھا، خوشی سے دل دھڑک رہا تھا، سانسیں بے قابو تھے. نہیں معلوم کہ وہ خوشی سے بے قابو ہو رہے تھے یا اس تجسس سے کہ جو آرہا ہے، جس نے فیصلہ کر لیا ہے اس کے مجلس میں بیٹھنے کا میرا طریقہ کیا ہونا چاہیئے، جن سے سرکار و سردار کپکپاتے ہوں، انکے دیوان کے آداب کیا ہونگے۔
تب ہی کچھ لمحے بعد سنگت دلجان آ پہنچا! ہم ایک دوسرے سے سلام دعا کرکے بیٹھ گئے، میرا دل بہت زور سے دھڑک رہا تھا، کچھ پل خاموشی کے بعد سنگت دلجان نے اپنے ساتھ لائے ہو ڈیو بوتل کھول کر پہلے میرا گلاس بھر کے پھر اپنا گلاس بھر لیا۔ دلجان سے کچھ گفتگو ہوئی پہلے تو میں خوشی کے مارے کچھ بول نہیں پایا، پھر سنگت دلجان کے نرم لہجے اور اندازے گفتگو سے میرے جان میں جان آگئی اور پھر محفل لگ گئی باتوں کا سلسلہ ڈیو بوتل کے ساتھ خوشگوار ہوتا رہا، سنگت دلجان کی گفتگو اور خوش مزاج چہرہ مجھے آج بھی یاد ہے اور اس کی باتوں میں کچھ جادو سا تھا، اس کی مجلس میں مجھے وقت کا کچھ پتہ بھی نہ چلا، جس دوست نے مجھے سنگت دلجان سے ملنے بیجھا تھا، وہ کال پے کال کرتا رہا کے آپ کے پاس دوست آگیا ملنے؟ آپ دلجان کے ساتھ ہو؟ وہ پریشان ہی ہورہا ہوگا لیکن مجھے شہید کے باتوں کے لطف نے کال اٹینڈ کرنے ہی نہیں دیا کہ میں دوست کے ساتھ دیوان کررہا ہوں، میں دیوانہ وار بس سنگت کی باتیں سنتا رہا۔
وہ باتوں کا ہنر رکھتا تھا، اسے ہر کسی کا فکر ہوتا وہ جنگ کو ایک مضبوط رسی نہیں بلکہ ایک جار نما بنا کر آگے چلنے کا ہنر رکھتا تھا، تب ہی سنگت دلجان نے مجھ سے کہا کہ یہ عمر آپ کے بندوق اٹھانے کی نہیں ہے، یہ عمر آپ کے پڑھنے کی ہے، بندوق اٹھانے کے لیئے ہم کافی ہیں۔ بس تم اپنے پڑھائی پر توجہ دو اور رابطے میں رہو دلجان جانتا تھا کے کام کے مختلف شکل ہیں، بندوق کوئی اٹھائے تو کوئی اس بندوق کو ٹارگٹ دِکھائے یا پھر کوئی اس بندوقچی کو کسی بھی لحاظ سے کمک کرے، وہ ہر پہلو سے سوچتا غور کرتا اور پھر عمل کرتا یا بیان کرتا، ورنہ میرے اس کم عمری میں کوئی مجھے اپنے ذاتی راز نہ دے، وہیں دلجان جیسا سنگت مجھے ایک عظیم راز سے آشنا کرنے آ پہنچا۔
جب دلجان کے لائے ہوئے ڈیو بوتل میں کُچھ بچ گیا تھا، تو سنگت نے دیکھا کہ دور کھڑا ایک شوان اپنے بزگل کے ساتھ اپنی دھن میں مگن ہے، تو دلجان نے اس شوان کو بلا کر ڈیو کا بوتل دے دیا اور اس شوان سے کچھ عجیب و غریب بات کرنے لگا تا کہ اس کو ہمارے بارے میں کوئی شک نہ ہو۔
کچھ لمحے بعد دلجان نے واپس کچاری شروع کر دیا اور مجھے کچھ ضروری باتوں سے آگاہ کیا، وہ ہر وقت کہتا کہ جب بھی کوئی مشکل ہو یا کوئی ضروری کام ہو تو ہم اپنے ایلموں سنگتوں کو کمک کرنے کے لیئے ہر وقت تیار ہیں، تھوڑی گفتگو کے بعد دلجان نے مجھے میرا کوڈ نام دے کر رخصت کیا۔
پھر ایک دن جب مجھے سنگت دلجان سے کچھ سامان درکار تھے، تو میں نے اسے بتا دیا اور وہ بھی یکدم راضی ہو کر مجھے وہ سامان دینے نکل پڑا۔ میں بھی اس کے بتائے ہوئے جگہے پر پہنچ گیا، کچھ لمحے بعد سنگت دلجان وہاں آ پہنچا اور بہت تھکا ہوا لگ رہا تھا، میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ہم بہت دور سے آ رہے ہیں اور آگے بھی تھوڈا سفر باقی ہے، اس دن دلجان تھوڑی جلدی میں تھا اور وہ ملاقات میرے اور سنگت دلجان کا دوسرا اور آخری ملاقات تھا، اس کے بعد کچھ عرصے کے لیئے کہیں اور چلا گیا، تو سوشل میڈیا پر سنگت سے کفتگو ہوتا، کوئی نیوز وغیرہ ہوتا تو ہمیں بھی اس سے آگاہ کرتے اور وہ کبھی کبھار مزاق بھی کر لیتا تھا۔
اس نے مجھے فٹبال کھیلتے دیکھا تھا، تو کبھی کبھار مجھ سے فٹبال کے بارے میں باتیں کرتا، ایک دن میں نے اس سے پوچھا کہ سنگت آپ فٹبال کھیلتے تھے یا نہیں؟ تو اس نے جواب دیا کہ کبھی کبھی کھیلتا تھا، مگر فٹبال کے فاوّلوں سے ڈر کے میں زیادہ فٹبال نہیں کھیلتا تھا پھر وہ جب بھی مجھ سے رابطہ کرتا تو مجھے رونالڈو کے نام سے پکارتا۔ وہ شاید بس گفتگو کو جاری رکھنے کے لیئے ہمیں بات کرنے کا موقع دینے کے لئے مزاق کرتا رہتا۔
سنگت دلجان مجھے میرے بھائی جیسا پیارا تھا۔ وہ ایک عظیم سنگت تھا اس رشتے نے مجھے رشتوں کی حقیقی معنی سے ملایا اسکے محبت نے مجھے سنگتی کا مطلب سکھایا، آج اسی کے بارے میں کچھ لکھ رہا ہوں کہیں اس کی ایمانداری مخلصی و محبت کے ساتھ نا انصافی نہ ہو۔ جو ہمیشہ ہمارے نوجوانوں کو سیدھی راہ پے لانے کے لیئے کوشاں تھا اور اخری دم تک رہا سنگت دلجان اپنا ہر کام محنت لگن اور ایمانداری کے ساتھ کرتا کبھی اپنے کام کو ادھورا نہیں چھوڑتا۔
جھالان کے ان پہاڑوں میں آج بھی اس کی آواز گونجتی ہے، آج سب سنگت، دلجان کو یاد کرتے ہیں اور دوست دلجان اور بارگ کی جدائی سے غمزدہ تو ہیں لیکن کمزور نہیں، یہ پہاڑ یہ باغات ،یہ دھرتی، سب افسردہ و حیران ہیں کہ ہم نے کس شخص کو کھو دیا ہے۔ دلجان آپ ہمیں بہت یاد آوگے، ہم ہمیشہ آپ کی کمی محسوس کرینگے، یہ آشفتہ سروں کا قافلہ یونہی چلتا رہے گا، یونہی دلجان کو کاندھے اور ملینگے، مگر وہ پہلا انسان جس نے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا، وہ آخر تک ساتھ رہے گا، سنگت آپ اس طرح ہمیں اکیلا چھوڑ کر چلے گئے۔ ابھی تو آپ سے سیکھنے کا موقع تھا، آپ کی شاگردی میں رہ کر کام کرنا تھا، دلجان آپ کی یادیں آپ کی وہ میٹھی باتیں، ہم کبھی بھول نہیں پائینگے اور ہم بھی یہ عہد کرتے ہیں کہ کبھی ہار نہیں مانینگے، ڈٹ کر مقابلہ کرینگے، اس آخری گولی تک جو آپ نے جاتے جاتے ہمیں سکھایا ہے، دلجان نے زندگی جینے کا ہنر سیکھایا اور ضیاء بن کر موت کو گلے لگانے کا ہنر سکھا کر چلا گیا۔ دلجان ہم ثابت کرینگے کہ آپ کے بے غرض خدمات نے کتنے دلجان بنائے ہیں۔
سنگت آپ کی مشن آج بھی اپنے منزل کی جانب بڑھ رہی ہے، آپ نے رہنمائی میں ہر ایک شہید سے آگاہ کیا تھا، آج آپ کے کربناک جدائی کے سواء اور کسی بات کا غم نہیں، غم نہیں کے اب آگے کا سفر کیسے طے ہوگا، غم اس لیئے نہیں کہ آپ نے ہمیں سکھایا ہے کہ مشکل و آسان ہر صورت میں کس طرح خود کو، اپنے تنظیم کو محفوظ رکھتے ہوئے دشمن پر وار کرنا ہے، آپ کے تعلیمات کئی سنگتوں کی طرح میرے لیئے بھی ہمیشہ رہنمائی کرتے رہینگے۔