پنجگور کے جلسوں سے  جڑی کچھ  یادیں۔ سنگت رضابہار

298

پنجگور کے جلسوں سے  جڑی کچھ  یادیں

 تحریر: سنگت رضابہار

 

ہاں وہ دن مجھے یاد ہیں جب پنجگور کی گلیوں میں صرف ایک ہی نعرہ گونجتاتھا، آزادی __ آزادی، ہم لیکر رہینگے آزادی تمہیں دینی پڑیگی آزادی۔ ، سب یہی ایک نعرے سے جُڑے ہوئے تھے۔ میں بھی شامل ہوگیا۔  کچھ معلوم نہیں تھا، آخر آزادی کیسے اور کس سے مانگنا ہے۔ بس بھیڑ کے نعرے کا جواب دیتا تھا۔

اس وقت تقریبا میری عمر صرف 15سال ہوگی،اور میں آٹھویں جماعت کا طالبعلم تھا۔ یہ جو آزادی کا نعرہ تھا یہ سن کر مجھے پتہ نہیں عجیب سی خوشی اور سکون محسوس ہوتاتھا۔ کئی بار جلسوں میں شرکت کی وجہ سے، کبھی اسکول نہیں جاپاتا تھا۔ پھر ٹیچر کی طرف سے خوب ڈانٹ بھی پڑتی تھی۔ پر کیا کرتا اپنی عادت سے مجبور تھا۔ جلسے اور پروگرامز جاری تھے۔ مختلف پروگراموں‘ جلسوں اور ہڑتالوں میں شامل رہا، لیکن باقائدہ کسی سیاسی پارٹی کا ممبر نہیں بنا۔

یہ سلسلے کئی مہینوں اور سالوں تک چلتے رہے، میں بھی بڑا شوقین تھا، بس بھیڑ میں کھڑا ہو کر نعروں کاجواب دیتا، جہاں بھی کہیں بھی اگر کسی جلسے کی خبر سنتا تو فوراً جانے کی تیاری کرتاتھا۔ دراصل جلسوں کے پیچھے چھپے راز ِآزادی کے بارے میں مجھے کچھ خاص تو پتہ نہیں تھا۔ بس یہ ایک شوق بن چکا تھا،جلسوں میں جاکربیھڑ میں کھڑے ہونے کا۔

بہت سے ہستیوں نے ان جلسوں سے خطاب کیا،شہید لالا منیر پیش پیش تھا، آغا عابد شاہ بھی ایک سرگرم لیڈر تھا، وہ جوش اور جزبہ آزادی جو میں نے لالا منیر اور آغاعابد شاہ میں دیکھےتھے کسی اور میں نہیں دیکھا۔شہید ماسٹر سفیر اور شہید شیرمحمد  بھی شامل تھے۔ بہت سے کارکنان شامل ہوتے تھے، اکثر بڑے بڑے جلسوں کیلئے مختلف علاقوں سے آتے تھے۔  ایک دن میں نے چیئرمیں زاہد بلوچ کو بھی کسی جلسے سے خطاب  کرتے ہوئے دیکھا،جو آج پاکستانی خفیہ عقوبت خانوں میں  اذیت برداشت کررہے ہیں، جس کا ابھی تک کچھ پتہ نہیں چلا۔

اچھا میں بات کررہاہوں جلسوں کا، میں اکثر جلسوں کے بعد پنجگور نیشنل ہوٹل میں دودھ پتی پینے جاتاتھا، اُس وقت ایک پیالے کی قیمت صرف دس روپے ہوا کرتا تھا،آج کا ریٹ بیس روپے ایک پیالہ ہے۔ یہ جلسے جلوس چلتے رہے، کبھی شٹرڈاؤن ہڑتال ہوتاتھا، کبھی پہیہ جام ہڑتال ہوتا۔ کبھی کسی شہید کی شہادت کے حوالے سے بازار بند رہتاتھا۔

سلسلے چلتے رہے، جب ایک دن میں کسی دوست کے دکان میں بیھٹا ہوا تھا، تو یہ خبر  آئی کہ تین بلوچ لیڈروں کو تربت سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اغواء کے بعد ان کی تشدد زدہ لاشیں تربت کے علاقے مرگاپ میں پیھنک دیں ہیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوا، ان میں لالا منیر، چیئرمین غلام محمد اور شیرمحمد شامل تھے۔ یہ سن کر بہت دکھ اور افسوس ہوا۔ بہت پریشان بھی ہوگیا کہ آزادی کے نعرے کے بدلے کیا موت ملتی ہے؟ اپنے قومی بقاء کی خاطر آواز بلند کرنا ایک جرم ثابت ہورہاہے۔ اپنا صدیوں پرانا قومی تشخص کو برقرار رکھنے کیلئے موت ملتا ہے۔ گولیوں اور مُختلف قسم کی تشدد سے انسان کو قتل کرتے ہیں___تھوڑا سوچنے میں لگ گیا، اور دوسری طرف ڈرنے بھی لگا، “یار رضا جسے تو شوق سمجھ کر شامل ہوتا رہا ہے، دراصل وہ کوئی  مہنگی اور پاک چیز ہے، جسے شدت سے مانگنے پر موت ملتا ہے۔”

ذرا اور سوچنے لگا، اور ایک بات ذھن میں آیا کہ انسان نام سے نہیں اپنے کردار سے امر ہوتا ہے9 اپریل 2009 کو وہی ہوا تین اہم قوم پرست لیڈر ہمیشہ کیلئے لہلہاتی ہوئی ‘ مہکتی ہوئی بادلوں اور  ہواؤں میں تحلیل ہوگئے۔

قوم پرستی کا جزبہ ایک عبادت ہـے، جن کو اپنی قومی پہچان کی فکر ہے، وہ اپنی عبادت پوری ایمانداری اور مُخلصی سے نبھاتے ہیں۔ وہ تینوں بلوچ فرزندوں نے اپنی عبادت پوری ایمانداری‘ جوش اور جذبے کے ساتھ ادا کیا۔ ان کے روح کی آواز مجھ تک آ پہنچا اور ایک احساس جاگ اُٹھااور دل ہی دل میں ایک ( شاعری ) یاد آگیا

(وہ جو رونق بہار تھے میرے شہر کا)

(وہ روشنی کہاں چلے گئے ہمیں چھوڑ کر)

تب سے لیکر آج تک جبری گمشدگیاں اور تشدد شدہ لاشیں، تسلسل سے جاری ہیں، آج بھی میں کبھی کبھار اسی ہوٹل میں دودھ پتی پینے جاتا ہوں،ایسا لگتا ہے چائے تلخ سی ہوگئی ہے۔ پہلے جیسا مزہ اب نہیں رہا۔ آج بھی انہی گلیوں میں پاگل کی طرح بھٹکتا ہوں، زندگی کی ریگستان کی ریت کی طرح کبھی اِدھر تو کبھی اُدھر۔

اب پنجگور کی گلیوں میں پہلے جیسا رونق نہیں رہا،

(وہ لوگ کہاں گئے جو روشنی  زندگی تھے)

اب کیا ہوا جو روشنی اندھیروں میں چھاگئے_

برسوں بعد میں نے آج پشاور میں پشتون تحفظ موونٹ کے جلسے میں شرکت کیا، سالوں بعد وہی کچھ محسوس کیا، جو میں نے پنجگور کے جلسوں میں دیکھا تھا، ویسے تو پشتونوں کی زبان میری سمجھ نہیں آتی لیکن ایک بات ضرورت سمجھ میں آگیا کہ یہ کوئی خاص مقصد کیلئے یہاں اکھٹے ہیں۔ پھر سوچنے لگا پتہ نہیں ان میں سے کل کس کس کو جبری طور پر لاپتہ کیا جائے ۔گا کن کن کی تشدد شدہ لاشیں پھینک دی جائینگی۔