بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے شہدائے مرگاپ کے نویں برسی کے موقع پر ایک بیان میں کہا ہے کہ شہدائے مرگاپ بلوچ قومی تاریخ میں ایک ممتاز مقام پر فائز ہیں اور رہتی دنیا تک بلوچ قوم کے ساتھ دنیابھر کے مظلوم انہیں یادرکھیں گے اور ان کے فکر و فلسفے سے رہنمائی لیں گے، ہمارا یمان ہے کہ شہدائے مرگاپ کا لہوایک دن رنگ لائے گا اور بلوچ سرزمین اپنی آزادی کی منزل کو پالے گا ۔
بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین نے پارٹی کے شہید قائد واجہ غلام محمدکو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ غلام محمد وہ ہستی ہے جس نے بلوچ جدوجہدآزادی کو حقیقی معنوں میں عوامی تحریک بنادیا، غلام محمد نے دشمن کی سختیوں اور اپنوں کی زہر میں بجھے نشتروں کا سامنا کیا لیکن اس عظیم ہستی میں ایسی طاقت و توانائی موجود تھی جس نے ان سب کا جوانمردی سے مقابلہ کیا اور بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کو آراستہ و پیراستہ کرنے کے لیئے بلوچ قوم کی بے مثال اعتماد حاصل کیا، ٹوٹے سلسلوں کو دوبارہ جوڑ دیا، وہ سلسلے جنہیں مفادپرست اور موقع پرستوں نے اپنے منافقت اور ریشہ دوانیوں سے بہت نقصان پہنچایا تھا۔
انہوں نے کہا میرے نزدیک غلام محمد کا سب سے کمال شخصی انحصار والے جدوجہد کو پارٹی بنیاد فراہم کرنا ہے اور چیئرمین غلام محمد بلوچ قومی سیاست کو قومی و انقلابی پیمانوں میں ڈھالنے کے لئے ،بلوچ قومی تحریک کے تجزیے اوراپنے طویل سیاسی تجربے وریاضت کی بنیادپرتحریک میں پارٹی اور پارٹی ادارے کے خلاء کو پُر کرنے کے لئے بلوچ نیشنل موومنٹ کونہ صرف نئی وجود بخشی بلکہ ایسی پارٹی کی تشکیل و تعمیر کی جس کے پلیٹ فارم سے قومی جدوجہد میں فیصلوں کا اختیار عام بلوچ کے ہاتھ میں آگیا ورنہ بلوچ کے حصے میں صرف قربانی اور دشمن کے مظالم سہنا تھااور فیصلے بلوچ قوم کو درخورِ اعتنا تک میں لائے بغیر قومی منشا سے برخلاف بالا ہوتے تھے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ غلام محمد کے پاس ایک نظریہ اور واضح سیا سی نصب العین تھا غلام محمد کے پاس تاریخ کا شعور تھا یہ غلام محمد ہی تھا جس نے قومی تقدیر کے فیصلوں کا حق بلوچ قوم کے ہاتھوں میں تھمادیا، یہ غلام محمد ہی تھا جس نے نظریاتی ابہام اور قوم پرستی کے نام پرقومی تقدیر سے کھیلنے والے موقع پرستوں سے بلوچ قوم کو چھٹکارا دلایا ،چیئرمین جانتا تھا کہ آزادی کیلیئے جدوجہد اور لہو بہانا لازم و ملزوم ہیں۔ سب سے پہلے اپنے لہو کا نذرانہ پیش کیا، اپنے ساتھیوں کے لہو کا نذرانہ پیش کیا، بلوچ قومی سیاست میں سیاسی بازی گروں کا راج تھا غلام محمد نے بازی گروں کے اس بھیڑ میں سر دان کرنے کے روایات کی بنیاد ڈالی، بلوچ آج تک اسی روایات پر قائم ہے جو بھی اس ڈگر سے ہٹتا ہے یا ہٹنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا نام و نشان مٹ جاتا ہے، شعور کی بالیدگی اور پختگی اسی سے ممکن ہے، آزادی کے لیئے کوئی بھی دوسرا جھانسہ دینے کی کوشش ایک فریب کے سوا کچھ نہیں ہے، چیئرمین غلام محمد کے فکری ساتھی اور پیروکار اسی فلسفے پر گامزن ہیں ۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ بلوچ قومی تحریک کو سیاسی اور عوامی بنانے کے لیئے غلام محمد نے بلوچ سیاست میں ایک نئی جہت متعارف کرائی اوراس کے اثرات آج ہم دیکھ رہے ہیں، ایک طاقت وردشمن کے تمام مظالم اور عالمی سازشوں کے باوجود بلوچ قوم اپنی موقف پر سختی سے ڈٹا ہوا ہے، دشمن کی بھیانک مظالم، قومی نسل کشی، روزانہ کی بنیادوں پر شہادتوں اور لٹتے بستیوں کے باوجود اب تک دشمن اور اس کے عالمی اتحادی بلوچ قوم کو اس کے موقف پر ایک انچ تک پیچھے ہٹانے میں ناکام ہیں، میں سمجھتاہوں کہ آج بلوچ قوم اپنے قومی تقدیر کے فیصلے کے اہلیت کے ساتھ ساتھ وہ قوت و طاقت حاصل کرچکاہے جس کے بدولت بھانت بھانت کے بولیوں اور سازشوں میں بلوچ قومی تحریک پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے اگر غلام محمد جیسا وژنری لیڈر شپ بلوچ کو میسر نہ ہوتا تو شاید ہمارے قومی مشکلات اس سے کئی گنا زیادہ ہوتے ۔
انہوں نے کہا کہ قوموں پر مشکل وقت ضرور آتے ہیں لیکن قومی تقدیر اور مستقبل کا فیصلہ یہی مشکل اوقات میں ہوتا ہے، آج بلوچ قوم پر کڑی وقت گزر رہی ہے بلوچ ایک ایسے دشمن کی درندگی اور حیوانیت کا شکا ر ہے جو قومی و انسانی اقدار سے محروم مغرب کے چند مفادات کے لیئے وجود میں لایا گیا ہے، مفادات کے لیئے وجود میں لائے جانے والے چوکیدار کہلاسکتے ہیں ریاست ہرگز نہیں، ریاست تاریخ اور تہذیب کا پیداوار ہوتے ہیں ،ہزاروں سال کی ارتقائی سفر سے وجود میں آتے ہیں، پاکستان کی تاریخ کیاہے یہ کس تہذیب کا وارث ہے آج تک پاکستان ثابت نہیں کرسکا ،پاکستانی دانشور تاریخ میں اپنی جڑوں کی کھوج لگانے میں ناکام ہیں لیکن ہمارے لیئے ایک دشمن ریاست کاروپ دھار چکاہے۔ ایک فوج جس کے پاس ایک باقاعدہ ریاست کی قوت ہے، اس قوت کو بلوچ قومی وجود کو مٹانے کے لیئےاستعمال میں لاچکاہے اور بلوچ قوم سے ایسے افراد پاکستان کے جرائم میں شامل ہوچکے ہیں جن کا وجود بلوچ نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ وابستہ ہوچکا ہے، میں بلوچ کے ایک نمائندے کی حیثیت سے ان پر واضح کردوں گا کہ ان کا حشر بنگلہ دیش کے غداروں سے ہر گز ہرگز الگ نہیں ہوگا، انہیں بلوچ وطن میں دفن ہونے کے لیئے دوگز زمین بھی نہیں ملے گی، آج پاکستان کے شریک جرم قطعاََ یہ توقع نہ رکھیں کہ پاکستان کے آتش و آہن کے برسات سے بلوچ کا وجود مٹ جائے گا اور پنجابی بلاشرکت غیرے بلوچ وطن کا مالک ہوگا اور دلالوں کا روزی روٹی چلتا رہے گا بلکہ آزادی کی جنگ میں یہ طاقت اور قوت ہوتی ہے کہ قابض کے ساتھ ہر قسم کے برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دے گا۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہاکہ آج ہم ایک ایسے انسان کو یاد کررہے ہیں جس نے موقع پرستوں کی بھیڑ میں سمت اور منزل کا تعین کیا، جنہوں نے نام نہاد ’’حقِ خود اداریت ‘‘ پر قوم کو عشروں تک دھوکے میں رکھا اور دوسری طرف انحراف کی تکمیل کرتے رہے اور 2003کو انحراف تکمیل کو پہنچ گیا، نیشنل پارٹی حئی و مالک کے بی این ایم اور حاصل خان کے بی این ڈی پی کا انضمام کا نتیجہ نہیں بلکہ بلوچ قومی کاز سے نام نہاد قوم پرستوں کے انحراف کا تکمیل تھا۔ شہید فدا بلوچ کے شہادت کے بعد انہوں نے ہر وہ حربہ آزمایا جس سے بلوچ قوم ان کے انحراف کو بھی قوم پرستی کا نیا حکمت عملی قرار دے اور جس طرح یہ نام نہاد قوم پرست پاکستانی مراعات کے سمندر میں غوطہ زن ہیں بلوچ بھی ان کی پیروی کرے لیکن بلوچ قوم صدیوں سے اس سرزمین کی حفاظت کرتے چلے آرہے ہیں اور تاابد اس کی حفاظت کریں گے، منحرفین خواہ کیسی شکل و شباہت میں ہوں ،خواہ کوئی بھی لبادہ اوڑھ لیں یہ بلوچ قوم کو آزادی کی راہ سے نہیں ہٹاسکتے ہیں ،ہم زمین کے وارث ہیں اس کی حفاظت ہماری لیڈر شپ نے اپنی لہو سے کی ہے، اب بھی بلوچستان کے کونے کونے میں بلوچ کا لہوبہہ رہاہے ہم کسی کوبھی اس کاسودا لگاکر مفادات اور مراعات حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے یہ ہمارا بلوچ قوم سے وعدہ ہے ہماری پیش رو لیڈرشپ نے جان کی بازی لگاکر بلوچ قوم سے اپنا قول نبھایاہے اور ہمارے قدم بھی نہیں ڈگمگائیں گے۔
اس عظیم دھرتی کے لیئے قربان ہونے والے سروں کی کوئی کمی نہیں، ہزاروں قربان کرچکے ہیں ہزاروں لاکھوں کی قربانی کے لیئے تیار ہیں ،یہ غلام محمد کا کاروان ہے اس میں کوتاہ ہمتوں کا کوئی گنجائش نہیں ۔چیئرمین غلام محمد نے انحراف کی تکمیل اور بی این ایم کے راکھ کو پھونک اسے شعلوں میں بدل دیا، یہ شعلے بلوچ قومی آزادی تک لپکتے رہیں گے ،یہ شعلے ہر انحراف کے منحرف کے ساتھ اس کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے ،ہمارا ایمان ہے کہ یہ شعلے قومی آزادی کے بعد روشنی کا مینار بن کر تاابد بلوچ قوم کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیں گے۔
اتحاد و اشتراک عمل کے کوششوں کا آغاز چیئرمین غلام محمد بلوچ نے کیاتھا اور کوششوں کا ثمر بی این ایف کی صورت میں قومی تحریک کو ملا جس میں کئی جماعتیں آزادی کے بنیادی نقطے پر اکھٹے ہوکر متحد ہوگئیں، میں واضح کرتاہوں کہ بلوچ نیشنل موومنٹ قومی تحریک میں اتحاد اور اشتراک کا قائل ہے اور اس کے لیئے کوشش کرتے رہیں گے لیکن بنیادی فلسفے پر کبھی مصلحت کا شکار نہیں ہوں گے پہلے بھی اس کی قیمت چکایا ہے اور آئندہ بھی اس کے لیئے تیار ہیں آج ہم ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ابہام اور پراسرار فیصلوں کی گنجائش نہیں ہے، بلوچ قوم نے اپنے قومی آزادی کے لیئے تصور سے زیادہ قربانیوں کا تاریخ رقم کیاہے، یہ لازوال قربانیاں قومی آزادی کے لیئے ہیں۔ قومی آزادی سے ایک انچ بھی پیچھے ہونے والے فیصلوں کے لیئے سوچنے والے پوری قوم کو اپنے سامنے سیسہ پلائی دیوارکی مانند پائیں گے۔
ہم جانتے ہیں کہ غلام محمد ایک فرد نہیں ایک ادارہ تھا ،غلام محمد ایک کثیر الجہتی انسان تھا اور ہر جہت میں بلوچ قوم کا درد پنہاں تھا یہ بلوچ قوم کا درد تھا جس نے موقع پرستوں کے بھیڑ میں اسے سنبھالا اور اس بظاہر کمزور سے شخص نے بلوچ قوم میں اپنی غلامی کے پاتالوں میں گری قوم کو لازوال جوش اور جذبہ دیا، آج ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ غلام محمد بلوچ پیش رو لیڈر شپ سے اس لیئے ممتاز اور منفرد ہے جس نے اپنی وراثت میں بلوچ کو ایک ایسی پارٹی دی جس نے دشمن کے تمام ظلم و جبر کے باجود اپنا وجود اور عمل برقرار رکھا ہے ،بلوچ نیشنل موومنٹ چیئرمین غلام محمد بلوچ کے سیاسی ریاضت اور بلوچ قوم پرستی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے، بلوچ نیشنل موومنٹ کو غلام محمد نے اپنے خون سے سینچاہے، چیئرمین کے بعد ہماری قیادت نے قربانی سے کبھی پس و پیش نہیں کیا بی این ایم کی قیادت نے اپنی جان داؤ پر لگا کر پارٹی کو اس مقام تک پہنچایا ہے۔