عالمی یوم صحت اور بلوچستان میں صحت کے شعبے کی بد حالی

285

بلوچستان میں صحت کے شعبے کا کوئی پرسان حال نہیں، یہ صرف کہنے کی بات نہیں بلکہ حقیقت میں ایسا ہی ہے۔

اس حقیقت کا اندازہ سرکاری اعداد و شمار سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جن کے مطابق بلوچستان میں صرف 30 سے 32 فیصد آبادی کو صحت کی سہولیات میسر ہیں۔

یہ حقیقت اس موقع پر سامنے آئی ہے جب عالمی یوم صحت منایا جا رہا ہے اور اس سال اس دن کا موضوع ہے ’یونیورسل ہیلتھ کوریج: صحت ہر جگہ ہر ایک کے لیے‘۔

مگر بلوچستان میں حقیقتاً ایسا نہیں ہے، بلوچستان میں کم از کم 6 اضلاع ایسے ہیں جہاں سرے سے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال ہی قائم نہیں کئے گئے جب کہ 10 سے زائد اضلاع ایسے ہیں جہاں اسپتال تو ہیں مگر وہاں میڈیکل اسپیشلسٹس ہی تعینات نہیں کئے گئے۔

جن اسپتالوں میں اسپیشلسٹ ہیں وہاں ان کی حاضری، طبی سہولیات اور ادویات کا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے دور دراز علاقوں سے لوگوں کو کوئٹہ یا دوسرے بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔

کوئٹہ کے سول اسپتال میں مریض کے ساتھ سبی سے آنے والے شبیر احمد کا کہنا تھا کہ سبی میں اسپتال تو موجود ہے مگر وہاں سہولیات نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسپیشلسٹ ڈاکٹر بھی موجود نہیں جس کی وجہ سے مجبوراً انہیں کوئٹہ آنا پڑا ہے۔

اسی طرح آواران کے علاقے مشکے سے آنے والے تیمور کا کہنا تھا کہ ’مشکے سے کوئٹہ آنا بہت جان جوکھوں کا کام ہے، راستہ بہت دور ہے، سڑک بھی نہیں ہے لیکن بہت مجبوری سے کوئٹہ آیا ہوں‘۔

تیمور نے بتایا کہ ان کے علاقے میں صحت کا چھوٹا مرکز تو ہے مگر باقاعدہ اسپتال نہیں ہے، وہاں ایک ڈاکٹر بھی تعینات کیا گیا ہے مگر وہ کبھی آتا ہے اور کبھی نہیں، وہ بس خالی تنخواہ لیتا ہے۔

ٹائیفائیڈ میں مبتلا بچے کو سول اسپتال کوئٹہ لانے والے پشین کے رہائشی حمیداللہ کا کہنا تھا کہ کوئٹہ کے علاوہ دوسرے علاقوں میں بھی صحت کی سہولیات فراہم ہونی چاہئیں۔

حمیداللہ کا کہنا تھا کہ اگر انہیں اپنے علاقے میں علاج کی سہولت میسر ہوتی تو کبھی اس مقصد کے لیے کوئٹہ نہ آتے، حکومت کو چاہیے کہ اس طرح کے اسپتال تمام علاقوں میں قائم کرے تاکہ دوردراز علاقوں سے لوگوں کو علاج کے لیے کوئٹہ نہ آنا پڑے۔

ان کا کہناتھا کہ پشین میں سہولیات کا بہت فقدان ہے لیکن کوئٹہ میں بھی مسائل ہیں، تشخیص ہو جاتی ہے تو سرکاری اسپتالوں میں ادویات دستیاب نہیں ہوتیں۔

نظامت صحت بلوچستان میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ انفارمیشن سسٹم کے شعبے میں کام کرنے والے ایک سینئر عہدیدار ڈاکٹر سلطان رودھی نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے پاس صحت کے شعبے میں انسانی وسائل کی کمی ہے، خاص طور پر خواتین کا مسئلہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ دوسرا مسئلہ اندرون بلوچستان انفراسٹرکچر کے علاوہ طبی عملے کے لئے بنیادی ضروریات میسر نہیں ہے، ڈاکٹروں اور طبی عملے کے لیے سہولیات ہی نہیں ہیں جس کی وجہ سے مسائل پیش آ رہے ہیں۔

ان کا کہناتھا کہ ہم بلوچستان میں صرف 30 سے 33 فیصد تک آبادی کو صحت کی سہولیات فراہم کر پا رہے ہیں۔

ڈاکٹر سلطان نے اس بات کی تصدیق کی کہ کم از کم 6 اضلاع ایسے ہیں کہ جہاں سرکاری اسپتال ہی قائم نہیں ہو سکے، ان میں واشک، بارکھان، شیرانی، دکی اور صحبت پور شامل ہیں۔
اسی طرح موسی خیل، دالبندین، ڈھاڈر، بولان، ہرنائی اور آواران سمیت کچھ اضلاع ایسے ہیں جہاں سرے سے کوئی میڈیکل اسپیشلسٹ، گائناکالوجسٹ، چائلڈ اسپیشلسٹ، جنرل سرجن یا فزیشن تعینات نہیں ہے۔
اس ساری صورتحال سے اگر کوئی شدید متاثر ہو رہا ہے تو وہ صوبے کےعوام ہیں۔

دوسری جانب بلوچستان حکومت گذشتہ 4 سال سے صحت کو تعلیم اور امن وامان کے بعد ترجیح قرار دیتی آئی ہے مگر زمین پر اس شعبے میں کوئی خاطرخواہ بہتری نظر نہیں آئی۔

اگر حکومت کی جانب سے شعبے کے لئے رواں سال کے لیے مختص رقم کو دیکھا جائے تو صوبے کے وسائل کے اعتبار سے 18 ارب روپے سے زائد کی خطیر رقم رکھی گئی تھی۔

اس طرح ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ 5 سالوں میں صحت کے شعبے میں لگ بھگ 100 ارب روپے مختص کئے گئے لیکن اتنی بڑی رقم کے باوجود صوبے میں صحت کے شعبے میں خاطر خواہ بہتری نہ آنا معنی رکھتاہے۔

اس صورتحال پر وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو بھی نالاں نظر آتے ہیں جس کااظہار انہوں نے حال ہی میں صوبے کے بڑے سرکاری اسپتال صوبائی سنڈیمن ہیڈکوارٹر اسپتال کے اچانک دورے کے دوران بھی کیا۔

دورے کے دوران وزیراعلیٰ نے ٹراما سینٹر میں صفائی کی صورتحال اور ڈاکٹروں کی غیرحاضری کا سخت نوٹس لیا تھا۔

وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ کیا فائدہ کہ اگر اسپتال میں مریضوں کا علاج نہیں ہوتا، ایسا ہے تو پھر یہ اسپتال بند کر دیتے ہیں اور مریضوں کو ہم خود کراچی سے علاج کرا لیتےہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کم ترقی یافتہ علاقوں کے بارے میں سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی کو دی گئی حالیہ بریفنگ میں کہا گیا تھا کہ بلوچستان میں صحت اور سماجی شعبے کی صورتحال سوڈان اور صومالیہ سے بھی بدتر ہے۔

سپریم کورٹ کے معزز جج کی سربراہی میں سانحہ سول اسپتال کے حوالے سے قائم کیا گیا ایک عدالتی کمیشن پہلے ہی صحت کے شعبے اور بالخصوص سول اسپتال میں خرابیوں کی نشاندہی کر چکا ہے۔

اس صورتحال کا ایک افسوسناک پہلو ڈاکٹروں کی آئے روز کی ہڑتال بھی ہے۔ مطالبات کےحق میں کئی کئی روز سرکاری اسپتالوں کی او پی ڈیز کا بند ہونا بھی صحت کے شعبے کے مسائل میں اضافے کا سبب ہے۔

عوام کا یہی کہنا ہے کہ صحت تو بنیادی انسانی حق ہے مگر وہ حیران ہیں کہ اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود انہیں علاج کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔

ان کا مطالبہ ہے کہ صحت کے شعبے کی بہتری کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں خاص طور پر اندرون صوبہ دور دراز علاقوں میں سرکاری اسپتال قائم کیے جائیں جب کہ پہلے سے موجود اسپتالوں کو فعال کیاجائے اور وہاں ادویات کےعلاوہ صحت کی سہولیات پہنچائی جائیں۔