شام میں مشتبہ کیمیائی حملہ: 100 سے زائد ہلاکتوں کا خدشہ

201

مشرقی غوطہ میں کیے جانے والے والے مشتبہ کیمیائی حملے میں ایک سو سے زائد افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں ’کافی زیادہ‘ بچے بھی شامل ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد پانچ سو سے زائد بتائی جا رہی ہے۔

 جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے شام میں کام کرنے والی تنظیم چیئرٹی یونین آف میڈیکل کئیر اینڈ ریلیف آرگنائزیشن ( یو ایس او ایس ایس ایم) کے حوالے سے بتایا ہے کہ مشرقی غوطہ میں ہونے والے مشتبہ کیمیائی حملے میں ایک سو سے زائد افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔ اس تنظیم کے ترجمان ایری ڈی سوزا کا جرمن نیوز ایجنسی اے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’بڑی تعداد میں خواتین اور بچے بھی مارے گئے ہیں اور زخمیوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے، پانچ سو سے تو زائد ہی ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ علاقے سے کلورین کی بُو آ رہی ہے لیکن وہاں امدادی سرگرمیاں جاری رکھنے والوں کے مطابق ممکنہ طور پر سرین گیس استعمال کی گئی ہے کیوں کہ یہ بھاری ہونے کی وجہ سے نیچے بیٹھتی ہے۔ ان کے مطابق متاثرین میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں جو اندرون ملک ہی بے گھر ہو چکے ہیں اور تہہ خانوں میں چھپے ہوئے تھے۔ گیس کی کثافت کی وجہ سے یہ ہوا میں اوپر اٹھنے کی بجائے، تہہ خانوں میں داخل ہو گئی تھی۔

امریکا نے اس مشتبہ کیمیائی حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ جاری ہونے والے بیان کے مطابق اگر یہ ثابت ہو گیا کہ یہ ایک کیمیائی حملہ تھا تو اس کی ذمہ داری روس پر بھی عائد کی جائے گی کیوں کہ وہ صدر بشار الاسد کی ’غیر مشروط‘ حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔

دارالحکومت دمشق کے مضافات میں دوما مشرقی غوطہ کا وہ آخری ٹھکانہ ہے، جو باغیوں کے زیر کنٹرول ہے اور حکومت اسے اپنے زیر اثر لانا چاہتی ہے۔ صدر اسد کی حامی فورسز نے اس علاقے پر قبضہ کرنے کے لئے شدید بمباری کا تازہ سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر شام سے موصول ہونے والی رپورٹیں درست ہیں تو یہ ہلاکت خیز ہیں اور یہ بین لاقوامی برادری سے فوری رد عمل کا مطالبہ کرتی ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے، ’’اسد حکومت اور اس کی حمایت کرنے والوں کو جواب دہ بنایا جانا چاہیے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے حملوں کو فوری طور پر روکا جا سکے۔‘‘