تاریکی میں ڈوبتا گوادر – اسد بلوچ

336

تاریکی میں ڈوبتا گوادر

تحریر : اسد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

زمانہ قدیم کی بہت ساری روایتوں میں ایسی کئی بستیوں کا تذکرہ ملے گا، جو ناگہانی آفت، کسی طوفان، اچانک سیلاب یا نامعلوم سبب سے تباہ ہوگئیں۔ ہمارے بچپن میں جب کوئی بچہ ڈانٹ ڈپٹ سے بھی باز نہیں آتا تب والدین یا رشتہ دار یاجوج ماجوج کے نام سے اسے ڈرا کر چپ کراتے۔ ہمیں نہیں پتہ ہوتا کہ یہ یاجوج اور ماجوج کس بلا کے نام ہیں مگر اتنا ضرور جانتے کہ اگر باز نہ آئے یا چپ نہ رہے تو یہ دو درندے چٹ سے ہمیں کھا جائیں گے۔

طوفانِ نوح کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان سے دنیا کی پوری آبادی غرق آب ہوگئی۔ شہروں کے شہر، بستیاں سب کچھ ملیامیٹ ہوگیا۔ اس اساطیری کہانی کی سچائی مان لی جائے تو ہو سکتا ہے کئی صدیوں بعد نسلِ انسانی کا دوبارہ جنم ہوا، نئی بستیاں بسائی گئیں، نئے شہر آباد کیئے گئے۔ طوفانِ نوح کے سیلابِ بلا سے بلبلاتے، تباہ ہوتے انسان علم، ہنر مندی، کاریگری اور اپنی محنت سے آج ترقی کے عروج تک پہنچا ہے۔

ترقی کی یہ معراج انسانیت کو کہاں سے کہاں لے جائے گی، یہ معلوم نہیں مگر یہ ہے کہ گوادر ماہی گیروں کی ابدی بستی اب یاجوج ماجوج کے شکنجے میں بری طرح پھنس گئی ہے۔ چند برسوں بعد شاید کسی کویہ اساطیری قصہ لگے کہ گوادر نامی یہ شہر بلوچ نامی بدبخت قوم کی جائے پیدائش آبائی وطن رہا ہے۔

گذشتہ ماہ دو دفعہ گوادر جانے کا اتفاق ہوا۔ واپسی پر یہ ہر دفعہ تاریکی میں ڈوبتا ہوا مستقبل محسوس ہوا۔ گوادر کتب میلے کے آخری دن آرسی ڈی سی پہنچا تو بڑا رش تھا، کتابوں کی بہاریں تھیں۔ کئی اسٹالز لگے تھے، جہاں ہر موضوع کی کتابیں دستیاب تھیں۔ ہال کے اندر پانچ دنوں تک مختلف ادبی و ثقافتی مجالس چلتی رہیں۔ آخری دن بھی بلوچستان کی ادب پر مجلس تھی۔ تین کتابوں کی دیم درائی ہوئی، جن میں اپنے واحد کامریڈ کی دختر ھانی بلوچ کی کتاب بھی شامل تھی۔

ھانی، بلوچی لوک کہانیوں کا وہ بہادر کردار ہے جو اپنے محبوب شے مرید کی تلخ بستہ یادوں کے سہارے بادشاہ چاکر کے محل میں خواب دیکھ کر زندگی بسر کرتی رہی۔ کامریڈ واحد کی ھانی بلوچ ہمارے عہد کا تارا ہے جس کے زمانے میں ان کی زمین خون آلود لاشیں اگلتی ہے۔ اپنے والد کی زندہ سلامتی کے لیے ھانی کو ایک گھریلو بچی سے بہادر عورت بننا پڑا تب جا کر کامریڈ واحد کسی مرگاپ یا توتک میں چیئرمین غلام محمد ثانی بننے کے بجائے کامریڈ واحد ہی بن کر لوٹ آئے۔ ہمارے عہد میں پلے بڑھے ھانی کی محبت یقیناً کسی شے مرید سے زیادہ اپنی مٹی ہو سکتی ہے۔

دوسری دفعہ گوادر جانے کا اتفاق Henrich Boll Stiftung نامی تنظیم کی دعوت کا نتیجہ تھا۔ کراچی اور اسلام آباد سے آئے ان میں سے بیشتر لوگ ماحولیات پر فری لانس رپورٹنگ کر رہے تھے۔ تین دنوں پر مشتمل اس پروگرام کے لیئے 31 مارچ کوگوادر کے لیئے رختِ سفر باندھا۔ وہی گوادر جو صدیوں سے ماہی گیروں کی جنت رہی ہے۔ اب وہ اپنے باسیوں کا بوجھ اٹھانے سے قاصر نظر آ رہا ہے۔ شام ڈھلتے گوادر پہنچا تو ہر سو تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ گوادر پر چھائے اس تاریکی نے کئی خدشات پیدا کیے ہیں۔ کئی وساوس نے جنم لیا ہے۔ میں مگر خاموش پی سی ہوٹل پہنچا تو معلوم پڑا گوادر اکا یہ ایک الگ دنیا ہے۔ یہ ماہی گیروں کی بستی ایک ہی وقت میں کہیں تاریک اور کہیں روشنی کا جھلملاتا شہر ہے۔

پی سی ہوٹل کے کمرے سے اپنے دوست ظریف بلوچ کے ساتھ رات کے کھانے کے لیے نیچے آیا تو ہماری ٹیم پہلے سے وہیں بیٹھی محوِ گفتگو تھی۔ میری جان پہچان ان میں صرف کے بے فراق سے تھی۔ سو پی سی ہوٹل کے پُرتعیش کھانوں کے درمیان ان سے مادری زبان میں سلام دعا کی لذت حاصل کی۔ یہ عجب ہے کہ کہیں کسی ایسے ماحول میں جسے آپ اجنبی محسوس کرتے ہوں۔ کوئی ہم زبان مل جائے تو ان سے بات کرنے کا ایک لطف ہوتا ہے۔ کے بی کے بعد عبدالرحیم بلوچ سے پہچان ہوئی پھر ساجد بلوچ آئے۔ یوں محفل جم گئی۔ بات ہوئی ہنسی مذاق ہوئی۔

کراچی اور اسلام آباد سے ہمارے جو ساتھی اس تنظیم کی طرف سے آئے تھے۔ ان میں صرف مومی سلیم جو کوارڈینیٹر تھا اور ہمیں انہوں نے کال کر کے دعوت دی تھی، کا نام ہمیں معلوم تھا مگر ان سے کوئی شناسائی نہ تھی۔ کسی نے باہمی تعارف کی زحمت گوارا نہ کی۔ اس لیے ہمیں اس نشست پر دوستوں سے پوچھنے کے بعد صرف مومی سلیم کا پتہ چل گیا۔ ہمای آمد سے پہلے اس شام کے بی فراق کے ساتھ یہ ٹیم ماہی گیروں سے ملاقات کر چکی تھی، جنہوں نے اپنے مسائل اور مشکلات کے علاوہ پیش آید خطرات پر بات کی تھی۔ چونکہ میں خود اس مجلس کا حصہ نہ ہوسکا تھا سو زیادہ معلوم نہ پڑا۔

اگلی صبح کو گوادر پورٹ کا دورہ تھا۔ ہوٹل سے نکلتے اجنبی پن کا احساس دلایا گیا۔ شاید اسے ہماری ٹیم کے دوستوں نے بھی محسوس کیا ہوگا۔ پورٹ جا کر نیلگوں سمندر سے گوادر کا نظارہ بے بسی کا عجب منظر پیش کرتا ہے؛ نیلے سمندر کی طوالت دور تک آنکھوں کو دھوکہ دلاتی ہے، وہاں فورٹ، ماہی گیری، ان کے مسائل، کل کی خوش حالی اور معلوم نہیں کیا کیا مژدہ سنایاگیا۔

ہماری ٹیم میں شامل لوگ مستقبل کے سنہرے ایام کی خوشی میں مستاں مگر سمندر کی گہرائی میں چپ یاس ماہی گیر بستی کے باسیوں کی پیش آید پُرخطر زندگی سے فراموش تھے۔ البتہ ماہی گیروں کے خیالات میں بسی بے بسی کی کیفیت سے وہ ضرور کچھ نہ کچھ آگاہ تھے۔ تب ہی فورٹ پر اور بعد میں بھی کہیں نہ کہیں ماہی گیروں سے ہوئی گفتگو کی تپش ہمیں محسوس ہوتی رہی۔

تین روزہ پروگرام کے دوسرے دن جب ٹیم کے دوسرے لوگ ڈھلتے سورج کا نظارہ کرنے چلے، تب ہم سورج کو گوادر کے گہرے سمندر میں ڈھلتا چھوڑ کر واپس ہوئے۔ کتب میلہ کے بعد اس دفعہ بھی میری واپسی اس وقت ہوئی جب سورج اپنی کرنیں بجھا کر روشنی کو تاریکی کے حوالے کرنے پہ کمر بستہ تھا۔ مغرب کے بعد تھکے ہارے دن کو الودارع کہنے والے گوادر کو ہم بھی اس امید پہ الوداع کہہ کر تربت روانہ ہوئے کہ یاجوج وماجوج کی بدبلا سے خداوندا ماہی گیروں کی بلوچ بستی کو محفوظ رکھے۔