یہ نعرہ سیاسی نعرہ نہیں، یہ ایک دیوانے مجاہد کا نعرہ تھا، جو انگریز فوج سے لڑتا ہوا آج کی تاریخ 23 مارچ کو شہید ہوگیا. جسے دنیا ہوش محمد شیدی کے نام سے جانتی ہے. افسوس آج اس عظیم مجاہد کا یوم شہادت ہے مگر ہمارے نوے فی صد نوجوان نسل کو اس غیرت مند مجاہد کے بارے میں کوئی خبر نہیں ہوگی. کیونکہ میڈیا پر ان کے نام کا بھی ذکر نہیں ہے کہ ہوش محمد شیدی کون تھا کہاں سے تھا. میں یہاں اس عظیم مجاہد کا مختصر تعارف لکھ رہا ہوں تاکہ یہ نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے.
ہوشو کے والد کا نام سبھاگو اور والدہ کا نام دائی تھا. اس کے بھائی کا نام نصیبو جبکہ بہن کا نام سیتاجی تھا. یہ سندھی نام ہیں جن سے ان کی سندھ سے محبت کی ایک جھلک نظر آتی ہے ہوشو کی پیدائش اور مزار کے حوالے سے متضاد رائے ہیں مگر جو سب سے زیادہ عام ہے وہ ہے کہ ہوش محمد عرف ہوشو شیدی کی پیدائش میر فتح علی ٹالپور کے گھر ہوئی کیونکہ ہوشو شیدی کی والدہ وہاں ملازمہ تھی .
ہوشو شیدی نے اپنا بچپن میروں کے گھر میں ہی گزارہ اور جب جوان ہوئے تو فوج میں بھرتی ہوگئے .ا س وقت سندھ میں تالپوروں کی حکومت تھی . اور ہوشو کا خاندان تالپوروں کا عقیدت مند اور وفادار تھا .
ہوشو اپنی بہادری اور وفاداری کی وجہ سے جلد ہی فوج میں جرنیل کے عہدے تک پہنچ گیا .
یہ وہ دور ہے جب میر فتح علی کا بیٹا میر صوبیدار سندھ کا حاکم تھا. سندھ کی خوشحالی دیکھ کر انگریزوں نے سندھ پر.قبضے کا منصوبہ بنایا. اس سلسلے میں انگریزوں نے تالپور حکومت میں سے چند غداروں کو ساتھ ملا کر میر صوبیدار کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور میر صوبیدار کے قریب ہوگئے جب ہوشو شیدی کو انگریزوں کی نیت پر شک ہوا اور اس نے میر صوبیدار کو انگریزوں کے منصوبے کے بارے میں بتایا تو میر صاحب نے اس پر یقین نہیں کیا.
11 جنوری 1843 کو انگریزوں نے ٹالپور حکومت پر شب خون مار دیا اور میانی کی جگہ پر پہلا معرکہ ہوا میر صوبیدار نے کوئی مزاحمت نہیں کی اور انگریزوں نے جلد ہی میر صوبیدار اور دوسرے سرداروں کو قید کرلیا .
ہوشو شیدی کے لیے یہ صورتحال بہت تکلیف دہ تھی اس نے اپنے قابل اعتماد دوستوں اور بہادر سپاہیوں کو جمع کرنا شروع کردیا اور 11 مارچ 1843 کو اپنی فوج کو لیکر نکل پڑا 23 مارچ 1843 کو ہوش محمد شیدی کی فوج اور انگریزوں کی فوج کا آمنا سامنا پھلیلی واہ کے قریب ہوا ہوشو نڈر جرنیل تھا وہ نعرہ لگاتے ہوئے مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں انگریز فوج کی صفوں میں گھس گیا اور اپنی دھرتی کی حفاظت کے لیے امر ہوگیا .
آج افسوس ہم اس عظیم سندھ کی دھرتی کے سپوت کو بھول بیٹھے ہیں .
ہوش محمد شیدی جیسا جوان مائیں صدیوں میں ایک بار پیدا کرتیں ہیں .
(نوٹ: دی بلوچستان پوسٹ اس تحریر کے حقوق محفوظ نہیں رکھتا اور نا ہی لکھاری کے نام سے آگاہ ہے کہ باقاعدہ اجازت لیکر یہ تحریر نشر کی جاتی، یہ تحریر قارئین کے دلچسپی اور معلومات کیلئے شائع کی جارہی ہے