سوشل میڈیا اور بلوچ
تحریر :ریاض بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ : کالم
آج کے دور میں سوشل میڈیا پیغام رسانی کا سب سے منفرد اور بہترین زریعہ ہے. سوشل میڈیا میں یک جہت ہو کر آواز کی گونج کبھی کبھی بندوق سے نکلی گولی کی شدت سے بھی زیادہ ہوتی ہے.
مشرق وسطٰی کا حالیہ عرب انقلاب ہو یا ایک ساؤتھ انڈین لڑکی کی دو منٹ ویڈیو پر اسکے کروڑوں فین بننا، اسی سوشل میڈیا کا ہی کمال ہے۔
بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں نے اخبارات و رسائل پڑھنا یا ٹیلیویژن دیکھنا چھوڑ دیا ہے اور لوگ اکثر اوقات اپنے موبائل فونز، پیڈ یا لیپ ٹاپ کے زریعے سوشل میڈیا سے جڑے ہوئے ہیں. سو میں سے غالباً نوے فیصد لوگ سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ کے کسی نا کسی روابط سے منسلک ہیں.
دنیا کے دوسرے قوموں کی طرح شاید بلوچ قوم انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا سے اس قدر منسلک نہیں ہے، جتنا ہونا چاہیئے، اسکی سب سے بڑی وجہ تو بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں سہولیات کی عدم دستیابی ہوسکتی یا اسکی افادیت سے نا آشنائی ہے. البتہ بلوچستان سے باہر قیام پزیر بلوچ عوام اس سے بخوبی سیاسی اور ذاتی استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔
اب بات ان بلوچ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کی کریں گے، جو سوشل میڈیا کو بطور ٹول اپنے قومی مقصد کیلئے استعمال کرتے ہیں.
بلوچستان میں بلوچ آزادی پسندوں کیلئے جب اوپن پالیٹکس مشکل بنتا گیا، تو سیاسی کارکنوں نے سوشل میڈیا کا رخ کیا. یہ ایک الگ بحث ہے کہ کچھ ناقدین نے اس اہم ترسیلات کے زریعے کو اپنے آپسی اختلافات کی باعث غلط استعمال کیا اور اپنا انرجی آپس میں دست و گریباں ہو کے ضائع کیا، اس میں کافی حد تک بہتری تو آئی ہے لیکن یہ جراثیم مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے ہیں۔
بلوچ قوم آج ہر محاذ میں قومی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے. جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے کہ سوشل میڈیا بھی اپنی آواز پہنچانے کیلئے ایک اہم پلیٹ فارم ہے. اب تک ہوئے سوشل میڈیا کمپیئنز(مہمات) کا اگر جائزہ لیا جائے، تو ہم اس حد تک خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر پائے ہیں جتنا ہونا چاہیئے تھا۔
وجوہات کافی سارے ہیں، اول تو ہماری تعداد ہی اتنی نہیں ہے کہ ہم ایک کمپیئن یا ھیش ٹیگ کو اس قدر ہائی لائیٹ کر سکیں کہ ہم جن اداروں سے توجہ مبذول کرانا چاہتے ہوں اور وہ فوراً متوجہ ہوں اور فوری نوٹس لے سکیں. البتہ یہ ضروری بھی نہیں کہ اگر خاطر خواہ رسپانس نہیں آرہا ہے تو لکھنا بولنا بند کر دیں۔
دوسرا اور اہم مسئلہ ہم ہزاروں میں ہو کے بھی سینکڑوں میں بکھرے ان ریت کے ذروں کی طرح ہیں، جنہیں ہوا کا ہلکا سا جھونکا بھی اِدھر اُدھر بکھیر دیتا ہے۔
آج ہمارے شہداء، گمشدگاں اور حتیٰ کہ قومی دن بھی الگ الگ پارٹیوں اور رہنماؤں نے الگ الگ بانٹے ہوئے ہیں. اسکی انتشار یا خلفشار کی ذمہ دار ہم سب ہیں۔
درج بالا چند سطور لکھنے کا ارادہ اس وقت کیا جب ایک بلوچ سماجی کارکن نے فیس بک پہ یہ گلا کیا تھا کہ بی ایس او آزاد کے اسیر چیئرمین زاھد بلوچ کی بازیابی کیلئے چلائی جانے والی کمپیئن میں اسکے بقول بی آر پی اور فری بلوچستان موومنٹ کے دوستوں نے بالکل حصہ نہیں لیا اور ایک ٹویٹ تک نہیں کیا۔ اسکے بقول انہیں شرم محسوس ہوتی ہے کہ آج وہ ایک آزادی پسند ہونے کے باوجود پارٹی باز اور فردی تابعدار بن چکے ہیں. آگے جا کر دوست کچھ اور جذباتی کلمات لکھتے ہیں جن کو یہاں لکھنا نہیں چاہتا ہوں۔
معذرت اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ سمجھدار اور باشعور سیاسی دوستوں نے خود کو ایک پارٹی فریم ورک یا فردی مزاج کے دائرہ کار میں اس قدر بند کرکے رکھا ہے کہ وہ بلوچ شہداء اور گمشدگاں کے بٹوارے میں برابر شریکِ جرم ہیں، میں اگر سیاسی اکابرین یا قد آور رہنماؤں کو کچھ کہنے کی جسارت نہیں کر سکتا لیکن اپنے ہم فکر سیاسی سنگتوں کو بلا جھجھک دو ٹوک کہہ سکتا ہوں جن کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر ہم نے بایاں ہاتھ اٹھا کر حلف لیا تھا۔.
ہم نے یہ حلف اور یہ کمٹمنٹ لیا تھا کہ ہم بلوچ قومی بقاء اور بلوچ قومی آزادی کیلئے بلا رنگ و نسل، بلا تفریق اور بلا تعصب ہمہ وقت جہد کریں گے۔
کیا بی ایس او آزاد سے منسلک سنگت اپنی قیادت سے یہ سوال نہیں کر سکتے کہ وہ ڈیرہ بگٹی میں 72 شہداء کیلئے کیوں بی آر پی کے دوستوں کے ساتھ ملکر آواز نہیں اٹھاتے؟ یا بی آر پی کے قائد اور بلوچ قومی رہنماء براہمدغ خان بگٹی کے سیاسی پناہ کے مسترد ہونے پر بی آر پی کیجانب سے شروع کی گئی کمپیئن میں حصہ کیوں نہیں بنتے؟
کیا براہمدغ بگٹی کے سیاسی پناہ پر بانُک کریمہ یا بانُک کریمہ کے سیاسی پناہ کے مسترد ہونے پر براہمدغ بگٹی کی طرف سے کوئی ٹویٹ کسی نے دیکھا؟
بی ایس او آزاد واحد بلوچ تنظيم ہے جسکی تقریباً پوری قیادت گمشدہ یا شہید کی جا چکی ہے، چیئرمین زاھد بلوچ، وائس چیئرمین زاکر بلوچ، موجودہ سیکرٹری جنرل عزت بلوچ اور سیکرٹری اطلاعات شبیر بلوچ سمیت مرکزی کمیٹی کے کئی ممبران کئی سالوں سے ریاستی اداروں کی تحویل میں ہیں۔ جن کا آج تک کوئی پتہ نہیں چل سکا ہے. چیئرمین زاھد بلوچ یا بلوچ طلباء قیادت کے اغواء کیخلاف چلنے والے کمپیئن میں بی آر پی یا فری بلوچستان موومنٹ کے کارکنوں کو اگر پارٹی قیادت منع کرے تو کیا وہ اپنی پارٹی قیادت سے یہ سوال نہیں کر سکتے کہ ہماری جدوجہد کا مقصد محض قومی بقاء ہے نا کہ فردی مزاج کی خوشنودی۔
خاکسار کی شاید اتنی بساط نہیں ہے کہ دانشور طبقے یا پارٹیوں کے قیادت کو اتحاد اور ہم آہنگی کی درس دے سکے.
کہتے ہیں کہ “بکھری ہوئی شعاعیں ایک نقطہ پر منجمد ہو کر طاقت ور ہوجاتی ہیں” یا کہتے ہوں گے کہ ” ریت خواہ کتنی ہی مقدار میں کیوں نہ ہوں، مگر جب تک بکھرے ہوئے ہیں تو طوفان انہیں بہا لے جاتی ہے، مگر چٹان انہی ریت کے زرّوں کا منجمد شکل ہے جس کو طوفان سے مقابلہ کرنے کا کوئی ڈر نہیں “.
اتحاد یا ایک ہی مقصد کیلئے اشتراک عمل کیلئے، ذاتی بڑائی کی قربانی دینی پڑتی ہے، انسان کے اندر بڑا بننے کا جذبہ بے پناہ حد تک پایا جاتا ہے اور یہی جذبہ اتحاد کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے. جہاں ہر فرد خودی یا ذاتی انا کو قربان کرنے کیلئے تیار نہ ہو تو انتشار جنم لیتا ہے۔
ہر سیاسی کارکن ریت کے وہ زرے کی مانند ہے، جب تک وہ دوسرے کارکنوں سے انجماد کرکے چٹان نہ بنا دیں تب تک ایسے بکھرے رہیں گے۔
سوشل میڈیا میں انتشار کو اتحاد میں بدلنے کیلئے ہمارے سیاسی پارٹیوں اور تنظیموں کے زمہ داران کو کردار ادا کرنا چاہیئے اور یہ سوچنا چاہیے کہ جب تک ہم بکھرے ہوئے ہیں ہماری آواز میں اتنی گرج یا آہٹ میں اتنی ہمت نہیں ہوگی کہ ہم دنیا کو جگا سکیں. یہ آپکے اور ہمارے جیسے سیاسی کارکنوں کی بھی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ پارٹی قیادت کو یکجہتی کیلئے زور دیں۔