لاپتہ کبیر بلوچ کی ہمشیرہ نے کہا ہیکہ کبیر بلوچ اور اُس کے ساتھی مشتاق بلوچ اور عطاء اللہ بلوچ 9 سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود تاحال لاپتہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس عرصے میں ہم نے انصاف کے حصول اور اُنکی بحفاظت بازیابی کے لیئے سیاسی و جمہوری انداز سے آواز بلند کرتے رہے، پاکستانی کورٹس کا دروازہ کھٹکھٹایا، لاپتہ افراد کے کمیشن میں درخواست دیئے اور گزشتہ کئی سالوں سے کورٹ اور کمیشن میں پیش ہوتے رہے لیکن کورٹ اور کمیشن نے انصاف کے تقاضے پورا کیئے بغیر اُنکے پیٹیشن اور درخواستوں کو خارج کردئیے کیونکہ جن اداروں نےانھیں لاپتہ کیا ہے، عدالتیں، پارلیمنٹ ، حکومت اور میڈیا سمیت انسانی حقوق کے ادارے اُن کے سامنے بے بس ہیں اور وہ ان طاقتور اداروں سے پوچھ گچھ نہیں کرسکتے اور نہ ہی وہ قوتیں کسی کے سامنے اپنے آپ کو جوابدہ سمجھتے ہیں۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ ہماری والدہ بھائی کی راہ تکتے تکتے اُن کے انتظار میں دل کی مریضہ بن چکی ہے اور آنکھوں کی بینائی سے بھی محروم ہو چکی ہے لیکن اب بھی وہ اس انتظار میں ہے کہ کبیر اور اُس کے ساتھی ایک دن ضرور آئیں گے، اب وہ اس اُمید میں جی رہی ہے۔
اگر کبیر بلوچ و اُس کے ساتھی زندہ سلامت ہیں تو اُنکے متعلق ہمیں آگاہی دی جائے اگر اُنھیں تشدد کا نشانہ بنا کر شہید بھی کردیا گیا ہے پھر بھی ہمیں بتایا جائے، ہر روز مرنے سے بہتر ہیکہ ایک دفعہ اُن کے لئےسوگ مناکر اپنے دلوں کا بوجھ ہلکا کریں۔
ہزاروں نوجوان مادر وطن کی دفاع کے لیئے اپنی جانیں نچھاور کیئے ہیں اور اب بھی سرزمین کی دفاع کے لیئے سربکفن ہوکر جدوجہد کررہے ہیں، اگر وطن کے آزادی کی راہ میں ہمارے بھائی کا خون کام آئے تو خدا کی قسم ہمیں کوئی دکھ نہیں ہوگا بلکہ اُنکے عظیم شہادت پر ہم فخر محسوس کرینگے اگر وہ زندہ ہے اور دشمن کی ازیتں سہہ رہا ہے پھر بھی ہمیں اپنے بھائی پر فخر ہے کیونکہ گزشتہ 9 سالوں کے طویل عرصے میں دشمن نے تشدد کے تمام ذرائع اُنکے لاغر اور کمزور جسم پر آزمائے ہونگے، 9 سال کے طویل عرصے میں دشمن نہ اُنھیں جھکا سکا نہ ہی اُن کے ارادوں کو پست کرسکا۔
کبیر بلوچ کی ہمشیرہ نے مزید کہا کہ 27 مارچ 2009 کو ریاستی اداروں نے کبیر بلوچ و اُس کے ساتھیوں کو خضدار سے اغوا کرکے لاپتہ کیا جو تاحال لاپتہ ہیں، ہم اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی عالمی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ کبیر بلوچ ، مشتاق بلوچ اور عطاء اللہ بلوچ کی بازیابی کے لیئے کردار ادا کریں اور اُنکے متعلق ہمیں آگاہی دی جائے۔