جنوبی ایشیاء میں دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک اہم موڑ تک پہنچ چکی ہے: امریکہ

186

امریکا کی جانب سے گزشتہ ہفتے پاکستان کے ساتھ تعاون کو بہتر بنانے کے اشارے کے بعد پینٹاگون کی جانب سے اسلام آباد کو یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ جنوبی ایشیاء کے خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک اہم موڑ تک پہنچ چکی ہے اور اس موقع کا استعمال کرتے ہوئے دہشت گردوں کو شکست دینی چاہیے۔

واشنگٹن میں پیٹاگون چیف کی ترجمان ڈانا ڈبلیو وائٹ نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کہا کہ ’پاکستان کے حوالے سے ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان مزید کام (ڈو مور) کرسکتا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک اہم موڑ ہے اور پاکستان کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ مزید اقدام کرے کیونکہ وہ دہشت گردی سے متاثر ہے لہٰذا ہم ان کے ساتھ کام جاری رکھنا چاہتے ہیں اور دیکھنا چاہتے ہیں کہ کہاں مواقع دستیاب ہیں‘۔

بریفنگ کے دوران افغان حکومت کی جانب سے طالبان کو مذاکرات کی دعوت پر پاکستان کے خیر مقدم کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’طالبان کو دہشت گردی اور تشدد کو ترک کرنا ہوگا اور افغانستان کے آئین کی حمایت کرنی ہوگی‘۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سینئر ساتھی لیسا کرٹس نے اچانک اسلام آباد کا دورہ کیا تھا اور پاکستان کی اہم قیادت سے ملاقات کی تھی، جس کے بعد پاکستان کی سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کا بھی واشنگٹن کا دورہ شیڈول ہے، جس کا آغاز منگل سے ہوگا۔

اس حوالے سے حکام نے تصدیق کی کہ اپنے دورے کے دوران تہمینہ جنجوعہ وائٹ ہاؤس اور امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے حکام سے ملاقات کریں گی جبکہ امن کے لیے بنائے گئے امریکی ادارے کے ماہرین سے بھی خطاب کریں گی۔

سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ وائٹ ہاؤس میں جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے امریکی قومی سلامتی کونسل کی سینئر ڈائریکٹر لیسا کرٹس سے ملاقات کریں گی۔

یاد رہے کہ لیسا کرٹس نے اپنے حالیہ دورہ اسلام آباد کے دوران پاکستان کے نئے تعلقات کو آگے بڑھانے کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا۔

اس بارے میں امریکا کے قائم مقام سیکریٹری آف اسٹیٹ الائس ویلس نے ایک انٹرویو میں پاکستان کو اس بات کی یقین دہانی کرائی تھی کہ امریکا پاکستان کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتا لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ واشنگٹن پرانے تعلقات کی بحالی نہیں چاہتا، جس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور سرد جنگ میں پاکستان کا ایک اہم اتحادی بنا دیا تھا۔

ان سب کے باوجود پینٹاگون حکام کی جانب سے واضح کیا گیا کہ واشنگٹن حالیہ امریکی پالیسی میں بتائے گئے نئے حقائق کی بنیاد پر تعلقات قائم رکھنا چاہتا ہے۔

یہ پالیسی ایشیا میں چین اور روس کے بھڑتے اثر و رسوخ کو امریکی مفادات کے لیے بڑے خطرے کے طور پر دیکھے جانے کے باوجود دہشتگردی کے خطرے کو کم کرتی ہے۔

نئی پالیسی میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ چین اور روس کے خطرے سے نمٹنے کے لیے واشنگٹن کے خیال میں بھارت اسٹریٹجک ساتھی ہوسکتا ہے۔