بلوچستان بلوچ قوم کی سرزمین ہے۔ ایف بی ایم
فری بلوچستان موومنٹ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیاہے کہ بلوچستان بلوچ قوم کی سرزمین ہے ۔ جس پر بلوچ قوم ہزاروں سالوں سےآباد ہیں۔ غیرفطری قابض ریاست پاکستان اوررضا شاہ کی ۱۹۲۸ میں غیرفطری ملک ایران ایجاد کرنے سے پہلے بلوچستان ایک آزاد ریاست کی شکل میں موجود تھا۔ بلوچستان کی برطانوی قبضے سے ایک سال پہلے ۱۸۳۸ کوسنڈیمن بلوچ ریاست اور بلوچ حاکموں کےبارے میں لکھتے ہیں کہ سارا بلوچستان ڈیرہ غازی خان سے لیکر سمندر تک خان ریاست قلات نوری نصیر خان کے زیر اثر تھا۔ مری، بگٹی اوردوسرے قبائل جو کہ خلیفہ روٹ کے راستےمرکزی ايشيا تک مقیم ہیں، سب اس کے ماتحت تھے۔
بیان میں کہا گیاہے کہ برطانوی قبضے کے بعدبھی خان قلات اور برطانوی ریاست کےدرمیان ہونے والے مذاکراتی، دستاویزات سےیہ بات ثابت ہے کہ خان قلات ریاستِ بلوچستان اور نوری نصیر خان کی طرح قلات کے تخت نشین یعنی ریاستِ بلوچستان کے سربراہ تھے۔ ان ہی دستاویزات سے ایک دستاویز حکومت برطانیہ اور خان کے درمیان ۱۸۶۳ کو ہونے والا معائدہ ہے جس کے عنوان میں قلات کے اس وقت کے خان، خداداد کو خان قلات اور خان بلوچستان کہا گیا ہے۔ اس معاہدے میں مکران اور بیلہ سمیت دوسرےعلاقوں کو ایک بلوچ ریاست کا حصہ تسلیم کیا گیا ہے۔
ایف بی ایم کی طرف سے جاری کردہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ برطانوی انخلاء کے دوران ہندوستان کے شہری محمد علی جناح کوحکومت بلوچستان کی طرف سے اجرت پر وکیل رکھا گیا اسی لیئے وہ بلوچستان کی سیاست اور بلوچ کی سیاسی کمزوریوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ جب بلوچستان کے پارلیمان نے پاکستان سے الحاق کر نے سے انکار کیا تو پاکستان نے بلوچستان پر قبضہ کرنے کے لیئےغیرقانونی طور پر بلوچستان کے علاقوں مکران، لسبیلہ اور خاران کو غیرقانونی طورپر الگ آزاد ریاست تسلیم کرتے ہوئے،بلوچستان پر فوج کشی شروع کردی۔
فوجی طاقت کے حوالے سے قلات میں قائم بلوچستان کی مرکزی حکومت کمزور تھی اسی لیے بلوچستان پاکستان کی فوجی جارحیت کا مقابلہ نہیں کرسکی۔ کسی بھی ریاست کی قانون علاقوں کو دوسری حکومت الگ ریاست کا درجہ نہیں دے سکتی اسی لیے بلوچستان کے جن، جن علاقوں کو پاکستانی ریاست نے خود ریاست کا درجہ دیا اور پھر ان کا پاکستان کے ساتھ الحاق کیا گیا تھا وہ عمل ازخود تمام عالمی قوانین کے خلاف تھا۔ چہارجنیواہ کنونشن کے سیکشن نمبر تین ،آرٹیکل نمبر ۴۷ کے تحت کوئی قبضہ گیر کسی دوسرے ملک پر قابض ہونے کے بعد یا طاقت کےذریعے کسی طرح ایک علاقے کو ریاست کا درجہ نہیں دے سکتا۔ اسی لیے جب بلوچ ریاست جسکا دارلحکومت قلات اور اس ریاست کے علاقےمکران، خاران اور لسبیلہ کو پاکستان کی طرف سے آزاد ریاست کا درجہ دینا اور ریاست تسلیم کرکے الحاق کا معائدہ کرنا عالمی قانون کی خلاف ورزی تھی۔
آج پاکستان کی طرف سے یہ دلیل دیا جاتاہے کہ چونکہ خاران اور مکران کے حا کم پاکستان کے حامی تھے اسلیئے وہ پاکستان میں شامل ہوئے۔ آج برطانیہ کے شہر لندن کے ناظم صادق خان ہیں جو کہ پاکستان پرست اور پاکستانی نژاد ہیں۔ کیا پاکستان لندن کے ناظم کو اپنا حمایتی دیکھ کر لندن کو الگ ریاست کی حیثیت دیتے ہوئے، اس کا الحاق پاکستان کے ساتھ کرسکتا ہے؟ اگر یہ عمل عالمی قوانین کے تحت ممکن نہیں تو جوعالمی قانون برطانیہ سمیت دوسرے ملکوں پررائج ہوتا ہے تو وہی بلوچ ریاست کے لیےبھی ہونا چاہئے تھا۔ چونکہ جنگ عظیم دوم کے بعد دنیا اپنے اندرونی مسائل کوسلجانے میں مصروف تھی اسی لیئے بلوچستان کو پاکستانی جارحیت کے خلاف عالمی سطح پرمدد نہیں مل سکی۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ بلوچستان کے وہ علاقےجو برطانیہ کو لیز کے طور پر دیئےگئے تھے ان علاقوں کو برطانیہ کی حکومت نے ہندوستان کو تقسیم کرنے والی پارلیمانی بل انڈین انڈیپینڈنس بل کے ذریعے پاکستان میں شامل کیا۔ ان علاقوں کو برطانوی بلوچستان کے نام سے جانا جاتا تھا مگر وہ قانونی طور پر بلوچ ریاست کے علاقے تھے۔ برطانوی پارلیمان میں اس بل پر بحث کے دوران برطانوی بلوچستان کو پاکستان میں شامل کرنے کے خلاف اس وقت کے پارلیمانی رکن سرگادفرے نیکولسن نے پارلیمان میں ۱۴جولائی ۱۹۴۷ کو اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر بلوچستان پاکستان کا حصہ بننا نہیں چاہتا اور اگر یہ پارلیمانی بل اسی صورت میں پاس ہوجاتی ہے، تو دنیا کی کوئی طاقت بلوچستان کوزبردستی پاکستان میں شامل کرانے سے نہیں روک سکتی۔
برطانیہ نےناصرف بلوچستان سے ہونے والے دفاعی معائدے کی خلاف ورزی کی بلکہ برطانیہ نےباقاعدہ طور پر بلوچستان پر پاکستانی قبضے کے لیے حالات پیدا کیئے۔ برطانیہ نے بلوچستان کے علاوہ دنیا کےدوسرے مقامات پر بھی علاقے لیز پر لیئےتھے۔ جب انیسویں صدی میں برطانوی سامراج نے چین کو جنگی شکست دی تب برطانیہ کی طرف سے چین کے علاقوں پر قبضہ کیا گیا اورتمام علاقے برطانیہ کی سرزمین قرار دیئےگئے لیکن برطانیہ نے چینی بادشاہ کی وقارقائم رکھنے کی خاطر قانونی معائدے میں علاقوں کو ننانوے سال کے لیے لیز کے طورپر لیا۔ اس معائدے میں چونکہ لیز کا ذکرتھا اسی لیے چین کی ریاست نے عالمی قوانین سے فائدہ اٹھاتے ہوئے برطانیہ کو مجبور کیا کہ ہانگ کانگ سمیت دوسرے چینی علاقوں کو واپس لوٹایا جائے۔ ۱۹۹۷ کوتمام چینی علاقوں کو برطانیہ کی طرف سےچین میں شامل کردیا جاتا ہے۔۲۷ مارچ ۱۹۴۸ سے چند ہفتے پہلے پاکستان نے بلوچستان سرزمین پر جاریت شروع کردی تھی ، دارلحکومت قلات سے تمام علاقوں کو پاکستان میں غیرقانونی اور طاقت کی زورپر شامل کرنے کے بعد پاکستان نے خان قلات کو مجبور کیا کہ وہ الحاق کے معائدے پر دستخط کرے۔ ۲۷ مارچ کو بلوچستان کی ریاستی حیثیت کو ختم کردیا گیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس تاریخ کو اجاگرکرنے اورپاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے فری بلوچستان مومنٹ کے زیر اہتمام جرمنی، لندن،امریکہ،کینیڈا، سویڈن اور نیدرلینڈ سمیت بلوچستان میں ستائیس مارچ یوم قبضہ کےحوالے سے احتجاج اور پروگرامز منعقد کیئےگئے۔ ایف بی ایم کی جانب سے جرمنی کے شہر برلن میں ایک ریلی نکالی گئی جو کہ برلن کے سنٹرل سٹیشن سے ہوتا ہوا برلن گیٹ میں پہنچ کر احتجاج کی شکل اختیار کر گیا ریلی کے شرکاء نے ہاتھوں میں بینرز پلے کارڈ اور آزاد بلوچستان کے جھنڈے اٹھائے ہوئے تھےجن میں بلوچستان پر پاکستان کے قبضے کےخلاف نعرے اور پاکستان کی جانب سے بلوچ قوم کی نسل کشی کے حوالے سے آگاہی پیغامات درج تھے، برلن گیٹ پر پہنچنے کےبعد فری بلوچستان موومنٹ کے کارکنوں نے بلوچستان پر پاکستانی قبضے کے خلاف زبردست نعرے بازی کی اور لوگوں میں پمفلٹ تقسیم کیئےاس کے علاوہ امریکہ اور کینیڈامیں فری بلوچستان موومنٹ کی جانب سے بلوچستان پر پاکستانی قبضے کے خلاف احتجاج کیئے جس میں شرکاء نے بلوچستان پر پاکستانی جبری قبضے کے خلاف نعری بازی کی اور امریکی اور کینیڈین عوام میں ستائیسمارچ ۱۹۴۸ میں پاکستانی فوج کی بلوچستان پر یلغار اور قبضے کے حوالے سے ٓاگاہی فراہم کی۔
اس کے علاوہ نیدر لینڈ کے شہر ہیگ میں عالمی عدالتِ انصاف کے سامنے فری بلوچستان موومنٹ کے کارکنوں نے بلوچستان پر پاکستانی قبضے اور بلوچ نسل کشی کےخلاف ہاتھوں میں زنجیر باندہ کراورپاکستانی فوج کے بھیس ڈھال کر زنجیر وں میں بندھے بلوچوں کے سر پر ہتھیار رکھتےہوئے پاکستان کی بلوچ قوم پر قبضہ کے بعدڈھائے جانے والے مظالم کو ویژول طریقے سےدنیا کو دکھانے اور لوگوں کو متوجہ کرنےکی کوشش کی ۔ ستائیس مارچ یوم قبضہ کےحوالے سے برطانیہ کے شہر لندن اور سویڈن کے شہر گوتمبرگ میں فری بلوچستان موومنٹ کے کارکنوں نے پروگرام منعقد کیئے جس میں بلوچ کارکنان کے علاوہ انسانی حقوق کےکارکنوں نے شرکت کی۔ لندن میں منعقدہ پروگرام میں فری بلوچستان موومنٹ کےکارکنوں کے علاوہ خان آف قلات سلیمان داود،انسانی حقوق کے حوالے سے جانے پہچانےشخصیت پیٹر تھاچل ، نیشن ودآوٹ اسٹیٹس کے سربرہ گراہم ولیمسن، بلوچ راجی زرمبش کے رہنماوں عبداللہ بلوچ، اسماعیل امیری اور بی آر پی لندن کے صدر منصور بلوچ نے شرکت کی۔