کچھی :خسرے کی وباء سے 12 بچے جابحق

431

بلوچستان کے ضلع کچھی میں خسرے کی وباء پھیلنے سے تقر یباً دو ماہ سے بھی کم عر صے میں 12 بچے انتقال کر چکے ہیں اور حکام نے مزید بچوں کو بیماری سے بچانے کے لئے علاقے میں امدادی ٹیمیں روانہ کردی ہیں ۔

دی بلوچستان پوسٹ ویب ڈیسک رپورٹ کے مطابق ضلع کچھی کے گاﺅں بوسا کے رہائشی گلزار بلوچ کا کہنا ہے کہ خسرہ کی وباء کچھ عر صے سے علاقے میں پھیلی ہوئی تھی جس سے اُس کے ایک سال کے دو جڑواں بچے متاثر ہوئے اور دونوں وفات پا گئے۔

محکمہ صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بیماری خشک سالی اور علاقے میں بارشیں نہ ہونے کے باعث ہر وقت اُڑتی ہوئی گرد و غبار سے پیدا ہوتی ہے جو کمزور اور حساس بچوں کو سب سے پہلے نشانہ بناتی ہے۔

ڈپٹی کمشنر کچھی الیاس کبزئی نے بتایا کہ خسرے کی وباء تین دیہاتوں میں پھیلی ہوئی ہے اور اس بارے میں عالمی اداروں یونیسیف، ڈبلیو ایچ او اور صوبائی حکومت کے ادارہ ای پی آئی کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔

“علاقے میں دس ٹیمیں روانہ کردی گئی ہیں اور اب وہاں بچوں کو مختلف امراض سے بچاﺅ کے ٹیکے لگائے اور قطرے پلائے جارہے ہیں اب تک تقریباً دو ہزار بچوں کو ٹیکے لگائے جاچکے ہیں ابھی یہ عمل جاری ہے۔”

ان کا مزید کہنا تھا کہ “بچوں میں جب ایک دفعہ یہ وباء پھیل جاتی ہے تو پھر معیاری اور طاقتور اینٹی بائیوٹیک ادویات بچوں کو دینے سے ہی یہ روکی جا سکتی ہے اور ادویات کا کورس مکمل کرانے سے یہ چیز رک سکتی ہے اور ہم اس پر جلد قابو پالیں گے۔”

ضلع کچھی کے حکام کا کہنا ہے کہ رواں سال سردیوں کے آغاز میں دو بار شدید سردی پڑنے کے باعث ہزاروں خانہ بدوش خاندان ضلع کچھی کے مختلف دیہاتوں میں منتقل ہوگئے تھے اور اب تک علاقے میں بار ش نہیں ہوئی، خشک سالی اور علاقے میں خانہ بدوشوں کی بڑی تعداد میں آمد بھی اس وباءکے پھوٹنے کا باعث ہوسکتی ہے۔

حکام کے بقول علاقے میں گذشتہ جنوری کے دوران بچوں کو خطرنا ک بیمار یوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ٹیکے لگائے اور پولیو کے قطرے بھی پلائے گئے تھے لیکن خانہ بدوش ایک سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات اُن کے بچوں کو خطرنا ک بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لئے لگائے جانے والے ٹیکے یا پلائے جانے والے قطروں کے کورس مکمل نہیں ہو پاتا جو بعد میں بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔

بلوچستان میں کو ئٹہ سمیت بعض شمالی، مغربی اور جنوبی اضلاع میں نومبر کے مہینے سے سخت سر دی کا موسم شروع ہو جاتا ہے اور اکثر علاقوں میں درجہ حرارت منفی دس سے بھی نیچے چلا جاتا ہے جس کے باعث ان تمام اضلاع میں جھونپڑیوں، خیموں اور کچے مکانات میں رہنے والے غریب و نچلے طبقے کے ہزاروں لوگ اور سیکڑوں خانہ بدوش خاندان نسبتاً گرم علاقوں بولان، کچھی، سبی، ڈیرہ مراد جمالی، ڈیرہ اللہ یار، صحبت پور، جیکب آباد اور سکھر کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں جہاں سے وہ گرمی کا موسم شروع ہونے سے پہلے اپریل میں واپس لوٹ آتے ہیں۔