خواتین کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف صنفی تعصب ساری دنیا میں پایا جاتا ہے۔
پاکستان کا شمار ان چار ملکوں میں ہوتا ہے جن کا اس رپورٹ میں خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے جہاں 18 سے 49 سال کی 49 لاکھ خواتین کو پائیدار ترقی کے چار شعبوں سے بیک وقت محروم رکھا جاتا ہے۔
ان شعبوں میں 18 برس کی عمر سے پہلے شادی، تعلیم تک رسائی میں رکاوٹ، صحت کے بارے میں فیصلے کرنے کی صلاحیت اور روزگار سے متعلق فیصلے شامل ہیں۔
دو سال قبل عالمی رہنماؤں نے ایجنڈا 2030 کی منظوری دی تھی جس کے بعد اس رپورٹ میں ایجنڈے کے 17 اہداف کی تکمیل کو صنفی پیمانے سے پرکھا گیا ہے۔
اس کے علاوہ اس میں ایسی قابلِ عمل سفارشات بھی دی گئی ہیں کہ اس ایجنڈے پر کیسے عمل پیرا ہوا جا سکتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک ہی ملک میں رہتے ہوئے بھی پاکستانی مرد و خواتین میں ان کی آمدن اور مقام کی وجہ سے واضح خلیج موجود ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سب سے پسماندہ نسلی گروہ سندھی، سرائیکی اور پشتون خواتین ہیں، جبکہ دوسرے اشاریوں سے پتہ چلتا ہے کہ غریب خواتین ہر جگہ یکساں طور پر پسماندہ ہیں۔
رپورٹ کے چیدہ چیدہ نکات یہ ہیں:
- ملک میں 74 فیصد خواتین ایسی ہیں جنھوں نے چھ برس سے کم تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔
- پشتون خواتین اس معاملے میں سب سے پسماندہ ہیں۔
- سندھ کے غریب ترین خاندانوں میں سے 40 فیصد خوراک کی کمی کا شکار ہیں، جب کہ قومی سطح پر یہ شرح 13.2 فیصد ہے۔
- غربت کی وجہ سے عورتیں کام کرنے پر مجبور تو ہو جاتی ہیں لیکن انھیں سخت رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں صنفی تعصب، کم مواقع اور کم اجرت شامل ہیں۔ ان وجوہات کی وجہ سے کم خواتین کام کر پاتی ہیں۔