مرکزی رہنماوں کی گرفتاری : بی ایس او آزاد نے پمفلٹ جاری کردی

426

بی ایس او آزاد نے تنظیم کے مرکزی رہنماوں کی کراچی گمشدگی کے تین ماہمکمل ہونے پر جاری کردہ پمفلٹ میں کہا کہ بلوچ طلبا ء پر ریاستی جبر ہمارے لیے کوئی نئی شئے نہیں بلکہ اگر ہم تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو ایسی بے شمار واقعات ہمیں ملتی ہیں جو ریاست پاکستان نے بلوچوں پہ روارکھا ہے۔

جس طرح آپ سب کے علم میں ہے کہ حالیہ ہونے والے واقعات بلوچ نوجوانوں کیلئے تعلیمی اداروں میں کافی دقت خیز رہا ہے جن میں قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں بلوچ طالبعلموں کے ساتھ ہونے والے رویے اور پنجاب یونیورسٹی میں بلوچ اور پشتون طالب علموں کے ساتھ ہونے والے واقعات سمیت گذشتہ ہفتے بولان میڈیکل کالج میں ہونے والے انٹری ٹیسٹ میں بدضابطگیاں اور انصاف کے طلب گار بلوچ طالب علموں کااحتجاج یخ بستہ ہواہوں کی مانند ہوتی چلی جارہی ہیں ، مگر اقتدار میں بیٹھے بے اختیار پارلیمنٹیرینز کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتا ۔

جبکہ بلوچستان سمیت پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بلوچ طالب علم تعلیمی مسائل کے ساتھ ساتھ ریاستی ظلم و جبر کا شکار بھی ہورہے ہیں ۔ جن میں کراچی سے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے بی ایس او (آزاد ) کے مرکزی سیکریٹری جنرل ثناء اللہ بلوچ مرکزی ممبران حسام اور نصیر سمیت بی این ایم کے رفیق بلوچ اور دیگر نوجوان و کمسن طلباء ہیں جو آج بھی ریاستی ٹارچر سیلوں میں بلوچ ہونے کی سزا بھگت رہے ہیں۔

بلوچ طلباء پر ہونے ریاستی جبر کے خلاف بلوچ طلباء نے ہر سطح پر اپنے احتجاج ریکارڈ کرائے لیکن ریاستی میڈیا نے بلوچ طلباء پر ہونے والے ریاستی جبر کی حمایت کرتے ہوئے بلوچ طلباء کے خلاف ہونے والے تمام واقعات دانستہ نظر انداز کردیے جبکہ ریاستی عدلیہ بھی ریاست کا ہم پلہ ہوکر پنجاب یونیورسٹی میں ریاست کے پالے ہوئے مذہبی شدت پسندوں کے ظلم کا شکار ہونے کے باوجود بلوچ اور پشتون طلباء پر دہشت گردی کا فائل درج کرتا ہے جوآقا اور مظلوم کے رشتے کو ظاہر کرتا ہے، چونکہ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ قابض ریاست منصوبے کے تحت بلوچ طلباء کو نشانہ بنارہا ہے جس کا مقصد بلوچ سماج میں علمی حوالے سے خلاء پیدا کیا جائے مگر دوسری جانب دنیا بھر میں انسانی حقوق کے علمبرداربے بس ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ان اداروں کی خاموشی قابض ریاست کی کاروائیوں کو مزید وسعت دے رہی ہیں۔
بلوچ نوجوانوں !!!
قابض ریاست کی تمام ظلم و جبر کے خلاف بی ایس او نے احتجاج کے تمام ذرائع اپنائے جو پُرامن اور سیاسی رہیں جسکی بڑی مثال بی ایس او (آزاد ) کے سابقہ چیرمین زاہد بلوچ کی گمشدگی کے خلاف مرکزی ممبر لطیف جوہر کی 46 روز ہ بھوک ہڑتال جو دنیا کو بلوچ طلباء بلخصوص بی ایس او کے خلاف ہونے والے ہونے والے زیادتیوں پر متوجہ کراسکی مگر انسانی حقوق کی علمبرداری کے دعویدار ادارے جن میں AHRCنے جو وعدے کئے تھے وہ بھی آج بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔دنیا کے مہذب اقوام ،انسانی حقوق کے علمبردارادارے اورتعلیم پر کام کرنے والے بین الاقوامی اداروں کی خاموشی کے باوجود ہم نے اپنا احتجاج اور سیاسی طریقہ کار کو ترک نہیں کیااس امید کے ساتھ آج ایک بار پھراپنے ساتھیوں کی بازیابی کیلئے مہذب دنیا کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ کراچی سے لاپتہ کئے گئے بی ایس او آزاد کے مرکزی قاہدین کو آج 15فروری کوتین مہینے مکمل ہوچکے ہیں تاحال ان کو منظر عام پر نہیں لایا گیا اور نہ ہی ان کے بارے میں ہمیں کوئی معلومات دیئے جارہے ہیں ہمیں بی ایس او کے مرکزی رہنماؤں کی زندگیوں کے بارے میں شدید خدشات لائق ہیں۔قابض ریاست نے مارو اور پھینکو پالیسی کے تحت بلوچ سماج کے قیمتی سرمایوں کو نشانہ بنایا جن میں بی ایس او آزاد کے مرکزی سیکریٹری جنرل رضا جہانگیر، مرکزی جونیئرجوائنٹ سیکریٹری شہید شفیع بلوچ ،کمبر چاکر،کامریڈ قیوم سمیت سینکڑوں کارکنان ریاستی جبر کاشکار رہے ہیں اور ہزاروں بلوچ فرزند آج بھی دشمن کے گمنام عقوبت خانوں میں غیر انسانی اذیت سہہ رہے ہیں ۔
باشعور بلوچ نوجوانوں!!!
بی ایس او آزادبلوچ طلباء کی نمائندہ تنظیم ہے جو طلباء کے حقوق اور قومی غلامی کے خلاف واضح موقف رکھتی ہے۔بی ایس او آزاد کے سیاسی کارکنان تمام تر ریاستی ظلم و جبر کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹے ہیں جس کی مثال مرکزی رہنماء ثناء اللہ بلوچ، نصیر احمد اور حسام بلوچ کی ریاستی اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگیاں ہیں ۔لیکن یہ ریاستی بربریت بھی بی ایس او آزاد کے کارکنوں کی ارادوں کو کمزور کرنے میں ناکام رہے ۔ قابض ریاست کی بڑھتے ہوئے ظلم و جبر سیاسی کارکنان کی سوچ و فکر کو مزید پختہ کررہا ہے
لیکن آج وقت کی عیت ضرورت ہے کہ بلوچ طالب علم اپنی جدوجہد کو وسعت دیں دنیا کے ہر فورم میں ریاستی بربریت کے خلاف آواز اُٹھائے آج کی دنیا میں موجود تمام جدید طریقہ کار کو استعمال کرکے قابض ریاست کے خلاف جدوجہد کومزید تیز کریں ۔بلوچ طلباء کی جدوجہداور قربانیوں کا ثمر ایک آزاد و خودمختیار بلوچ وطن ہوگااور یہ ہمارا ایمان ہے کہ ریاست کو سوائے ناکامی و شکست کے اور کچھ نصیب نہیں ہوگا ۔