طالبان اب جنگ جیت نہیں سکتے : مذاکرات ہی واحد راستہ ہے : امریکہ

354

امریکہ کے محکمہ دفاع نے جنگ کے میدان میں افغان فورسز کی کامیابیوں کو سراہتے ہوئے طالبان باغیوں پر زور دیا کی وہ “امن اور سیاسی قبولیت” کے لیے کابل حکومت کے ساتھ سیاسی بات چیت کی راہ اختیار کریں۔

یہ بیان رواں ہفتے پینٹاگان کی کانگرس کو پیش کی گئی ایک رپورٹ میں سامنے آیا ہے جو 21 اگست کو صدر ٹرمپ کی افغانستان اور جنوبی ایشیا سے متعلق نئی پالیسی کے اعلان کے بعد پہلی رپورٹ ہے۔

کانگرس کو جمعہ کو دی گئی رپورٹ میں پینٹاگان نے کہا کہ امریکی اور افغان “ذرائع نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ لڑائی کے گزشتہ موسم کے مقابلے میں یہ موسم بہت کامیاب رہا ہے۔”

رپورٹ میں کہا گیا کہ “(یکم جون سے 30 نومبر کے عرصے ) کے دوران طالبان کسی صوبائی مرکز کے لیے خطرہ نہیں بن سکے اور (انہوں نے ) اہم اضلاع کا کنٹرول کھو دیا ہے اور اے این ڈی ایس ایف (افغان نینشل ڈیفنس سیکورٹی فورسز ) کا آبادی کے تمام بڑے مراکز پر کنٹرول برقرار رہا۔”

امریکی فوج کے کمانڈروں نے موسم گرما کے آغاز میں کہا تھا کہ لڑائی میں “تعطل” کی کیفیت ہے جب کہ افغان فورسز طالبان اور دیگر شدت پسند گروپوں کو ملک میں (بعض علاقوں میں) پیچھے رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ “یہ حکمت عملی امریکہ کی گزشتہ انتظامیہ کی اس سوچ سے مختلف ہونے کے عزم کی غمازی کرتی ہے جس میں توجہ افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا کے اوقات کار پر مرکوز تھی۔”

رپورٹ کے مطابق افغانستان میں “ہمارا مقصد بھی یہی ہے کہ افغانستان کو ایسا محفوظ ٹھکانا بننے سے روکنا ہے جہاں سے دہشت گرد گروپ امریکہ یا ہمارے اتحادیوں اور بیرون ملک مقیم (ہمارے ) شہریوں کے خلاف حملے کی منصوبہ بندی اور پھر ان پر عمل درآمد کر سکیں۔”

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مقصد وہی ہے جو 2001 ء میں تھا “ایک مستحکم، آزاد افغانستان جو اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن میں رہے۔ اس مہم کا مقصد طالبان کو اس بات پر آمادہ کرنا ہے کہ جنگ کے میدان میں ان کی جیت نہیں ہو سکتی ہے۔ اس جنگ کا خاتمہ افغانوں کی قیادت میں ایک جامع سیاسی تصفیے سے ہی ہو سکتا ہے جس میں طالبان سمیت تمام فریق شامل ہوں۔”

پینٹاگان کا کہنا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی ان کے لیے ایک “قابل اور معقول شراکت دار” ہیں۔

“امریکہ کی حکمت عملی کے ساتھ انہوں نے کابل میں امریکی سفارت خانے اور افغانستان میں امریکی فورسز کے ساتھ مل کر انتظامی نظم ونسق، معاشی ترقی، سیکورٹی اور امن عمل کے چار ترجیحی شعبوں میں اصلاحات شروع کرنے اور ان کی نگرانی کا عمل شروع کیا۔”

رپورٹ میں اشرف غنی کے ” طویل مدت کے منصوبے کا حوالہ دیا گیا ہےجس میں باغی اور دہشت گرد فورسز کے خلاف جنگ میں انہیں پہل کرنے کا موقع نا دینا، اے این ڈی ایس ایف کی پیشہ وارانہ صلاحیت کو بڑھانا، فورس کے ڈھانچے کو تبدیل کرنا اور طالبان کو مصالحت کی راہ اختیار کرنے پر مجبور کرنا شامل ہے۔”

پینٹاگان کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا سے متعلق نئی پالیسی کے تحت امریکہ نے افغانستان میں انسداد ہشت گردی کے مشن کے لیے مشاورت اور تربیت اور مدد فراہم کرنے کے لیے “مناسب تعداد میں” اضافہ فورسز کو متعین کیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں امریکی فورسز کے 14 ہزار اہلکار تعینات ہیں جو کہ گزشتہ رپورٹ میں بتائی گئی تعداد سے 3 ہزار زائد ہیں۔