گِرین بُک (حصہ سوئم) ترجمہ: نودبندگ بلوچ

658

گِرین بُک
حصہ سوئم
ترجمہ: نودبندگ بلوچ

کوئی بھی جنگی حکمت عملی بنانے سے پہلے ہماری سب سے پہلی ذمہ داری اور خدشہ اپنے دوستوں، رشتہ داروں، ہمسائیوں اور اپنی قوم کی حفاظت ہونی چاہیئے، کیونکہ یہی ہمارے لوگ ہیں، جن کے بیچ میں رہتے ہوئے ہی ہم دشمن سے مقابلہ کرتے ہیں۔ ہمارے برعکس دشمن تو یہاں غیروں کے بیچ میں جنگ لڑ رہا ہے۔ جہاں وہ لوگوں کو غیر مہذب اور وحشی سمجھتا ہے۔ جن کی زندگیوں کے بارے میں انہیں کوئی پرواہ نہیں اور اس پر اضافی یہ کہ دشمن کے پاس ہر طرح کے وسائل موجود ہیں، اس کے پاس ایک روایتی آرمی ہے، نیم فوجی دستے ہیں، منظم پولیس ہے اور خفیہ اداروں اور جاسوسوں کا جال ہے۔

ہمارے اور قابض برطانیہ کے بیچ سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ” وہ اس سر زمین کا مالک نہیں بلکہ بن بلائے آیا ہوا قابض ہے، جس کے پاس یہاں ٹِکے رہنے کیلئے کوئی تاریخی اور اخلاقی جواز نہیں“۔ اس کے علاوہ سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ آزادی کے جہد کاروں کے بر خلاف دشمن کے سپاہیوں کے پاس کوئی اخلاقی ترغیب، عوامی حمایت یا ذاتی آزادی نہیں ہے۔ قابض برطانوی فوج کی تنخواہیں، خوراک، اسلحہ اور راشن سب برطانوی عوام کے ٹیکسوں سے آتا ہے، جن سے ٹیکس تو لیا جاتا ہے لیکن یہ جنگیں انکے پیسوں سے بغیر انکے رضا کے شروع کی جاتی ہے۔ جبکہ ہم اپنے عوام سے بے پرواہ اور غافل نہیں ہوسکتے۔ ہمارا ہر ایک کارکن، پوری حمایت عوام سے ہی حاصل کرتا ہے اور ہم عوام کے بغیر یہ جنگ نہیں لڑ سکتے۔

ہمارا ہر جہد کار تحریک کا حصہ اپنی مرضی سے بنتا ہے۔ اپنے قومی مقاصد، سیاسی آزادی و نظریہ، اپنے لوگوں کیلئے سماجی اور معاشی آزادی و انصاف کا احساس ہی وہ واحد وجہ ہے کہ ایک شخص ہمارے اس تحریک کا حصہ بنتا ہے۔ اسکے برعکس قابض فوج کے ایک سپاہی کے پاس کوئی آزادی نہیں ہوتا۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ وہ کب سوئے، کب اٹھے، کب لڑے اور اپنے فارغ وقت میں کیا کرے۔

ایک جہد کار ماسوائے کسی خاص ذمہ داری کے نبھانے کے دوران یا کسی فوجی کاروائی کے وقت کے علاوہ، زیادہ تر وقت اپنے منشاءکا مالک ہوتا ہے۔ اس لیئے اسکے کندھوں پر یہ آزادی ذمہ داری ڈالتی ہے کہ وہ اپنے اس آزاد منشی کو ہمیشہ صحیح استعمال کرے اور کبھی بھی کوئی ایسی حرکت نا کرے، جو ہمیں ہمارے اپنے لوگوں سے دور کرکے دشمن کا کام آسان کردے۔

اب تک یہ بات واضح ہوجانی چاہیئے کہ ہماری ذمہ داری صرف دشمن کے زیادہ سے زیادہ اہلکاروں کو مارنا نہیں ہے، بلکہ اس سے بڑی ذمہ داری عوام کے اندر زیادہ سے زیادہ حمایت پیدا کرنا ہے، تاکہ وہ ہمیں اتنی قوت مہیا کردیں کے ہم دشمن کے خلاف مزید دس سال جنگِ آزادی کامیابی سے جاری رکھ سکیں، جو بالآخر دشمن کی شکست اور ایک آزاد ریاست کے قیام پر منتج ہو۔

تحریک ہمیشہ ہمارے اعمال اور تعلیم و تربیت کی مدد سے سے متحرک و غیر متحرک حمایت سے مزین ہونا چاہیئے اور ہمیشہ یہ کوشش جاری رہنا چاہیئے کہ غیر متحرک حمایت کو متحرک حمایت جیسے کہ جنگی سامان چھپانے والا، تحریک کا باقاعدہ کارکن یا تحریکی اخبار و پمفلٹ تقسیم کار وغیرہ کی صورت میں تبدیل کیا جائے، تاکہ ہمارے اور دشمن کے بیچ ایک مضبوط دفاعی لائن قائم کی جاسکے جو دشمن کی ہمیں عوام سے کاٹنے اور الگ تھلگ کرنے کی پالیسی و حکمت عملی کو توڑ سکے ۔ ہم عوامی حمایت کی جتنی دفاعی لائنیں اپنے اردگرد بناسکیں گے پھر یہ دشمن کیلئے اتنی ہی مشکل ہوجاتی ہے کہ ہم تک پہنچ سکے اور یہ ہم میں مزید صلاحیت پیدا کرتی ہے کہ ہم مزید متحرک عوامی حمایت پیدا کرسکیں۔

یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ان تمام عسکری و سیاسی تربیت و مشوروں کے باوجود ایک نئے کارکن کو یہ سمجھنا اور خبردار کرنا ضروری ہے کہ جیل و بند، پوچھ تاچھ، تفتیش ایسی چیزیں ہیں جن کا سامنا اسے کبھی بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیئے کارکنوں کو یہ تربیت دی جانی چاہیئے کہ پکڑے جانے کے بعد انکا سامنا کِس چیز سے ہوگااور تفتیش کا مقابلہ کیسے کیا جاسکتا ہے۔

مقابلہ تفتیش:
۔۔۔۔۔۔

۱۔ گرفتاری:۔
زیادہ تر کارکنان فوجی آپریشنوں کے دوران گرفتار ہوتے ہیں، گرفتاری کارکنوں کیلئے ایک صدمہ ہوتا ہے، جو پریشانی اور ذہنی دباو کا موجب بنتا ہے۔ گرفتاری کے بعد ہر کارکن کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ ناکام ہوگیا، یہ احساس ان میں مایوسی پیدا کرتی ہے۔ دشمن گرفتار کارکن میں مایوسی کے اس احساس سے بخوبی واقف ہے، اس لیئے گرفتاری کے فوراً بعد وہ کارکن کے اسی کمزوری پر حملہ کرتے ہیں اور طنز، طعنوں اور گالیوں کے ذریعے اسے بتاتے رہتے ہیں کہ ” تم تو ایک بچے ہو، تم اپنی نا لائقی سے اتنے آسانی سے پکڑے گئے، تم تو دوسرے درجے یا اس سے بھی بدتر جنگجو ہو وغیرہ“۔

گرفتار کرنے کے دوران ، دشمن بہت سختی سے کام لیتا ہے، تاکہ اسے شروع سے ہی ڈرایا جائے اور اسکے مزاحمت کو توڑا جائے۔ زیادہ تر گرفتار کارکن کو بری طرح گھسیٹ کر فوجی گاڈیوں میں دھکے دے کر سوار کیا جاتا ہے۔ زندان کی طرف لیجاتے لیجاتے راستے میں ہی گرفتار کارکن کو لاتیں اور گھونسیں مارے جاتے ہیں، گالیاں دے کر اسکی بے عزتی کی جاتی ہے ۔ زندان تک پہنچنے کے بعد بھی اسے گھسیٹ کر، گھونسے اور لاتیں مار مار کر کوٹھڑی میں بند کیا جاتا ہے۔

گرفتاری کی صورت میں ایک کارکن کو کیا کرنا چاہیئے :۔
۱۔ گرفتاری کے صورت میں سب سے اہم بات جو ایک کارکن کو اپنے ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ تم ایک انقلابی آرمی کے ایک کارکن ہو اور دشمن کی فوج تمہیں پکڑ رہی ہے، تمہارا ایک ہی مقصد ہے، تم حق پر ہو اور دشمن غاصب ہے۔ تم اپنا فرض نبھاتے ہوئے پکڑے گئے اور پکڑے جانے میں کوئی ندامت اور بے عزتی نہیں ہے۔
۲۔تمہیں اپنے ذہن میں یہ بات اچھے طریقے سے رکھنا چاہیئے کہ تم سے جو بھی برتاو رکھا جارہا ہے، یہ سب ماہرین نے ترتیب ہی اس لیئے دیا ہے تاکہ تمہیں توڑا جائے اور تمہارے پاس جو بھی تنظیمی راز ہیں انہیں اگلوایا جائے۔
۳۔ دشمن تمہیں بربریت اور باتوں سے اکسائے گا۔ اگر کوئی کارکن گرفتاری کی صورت میں مایوسی کے دلدل میں پھنس چکا ہو تو پھر وہ پہلے سے ہی ٹوٹنے کے کگار پر پہنچا ہوا ہوتا ہے، جسے دشمن فوری پہچان کر اپنے حق میں استعمال کرتا ہے۔ ہر کارکن کو اپنے ذہن میں یہ بات رکھنی چاہیئے کہ وہ بھی گرفتار ہوسکتا ہے اور جب وہ گرفتار ہوں، تو انہیں بد ترین صورتحال کیلئے خود کو ذہنی طور پر تیار رکھنا چاہیئے۔

۲۔ تفتیش:۔

گرفتاری کے بعد کارکن کو ایک طویل عرصے تک کوٹھڑی میں اکیلا چھوڑ دیا جاتا ہے، اس دوران تفتیش کار اور دوسرے اہلکار وقتاً فوقتاً آکر اس پر چیختے چلاتے اور گالیاں دیتے رہتے ہیں۔ اس دوران کارکن پر تشدد بھی کیا جاسکتا ہے۔ اسی دوران اسکے انگلیوں کے نشانات لیئے جاتے ہیں اور اس سے سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ اسکا نام، پتہ، تعلیم، نوکری وغیرہ ہر معلومات اس سے پوچھا جاتا ہے۔ اسکے بعد گرفتار کارکن کو دوبارہ بند کیا جاتا ہے اور اسی دوران تفتیشی اہلکار اسکے بابت سب معلومات اکٹھا کرتے ہیں، خاص طور پر وہ مقامی پولیس سے اسکے بارے میں پوری معلومات لیتے ہیں۔ اس دوران تفتیشی اہلکار کو پتہ چلتا ہے کہ گرفتار کارکن کن نظریات کا مالک ہے اور اسکے تعلقات کس کس سے ہیں اور اس کے بابت ایک فائل ترتیب دی جاتی ہے۔

زیادہ تر تفتیش کاروں کو اندازہ ہوچکا ہوتا ہے کہ گرفتار کارکن محض تحریک کا حمایتی ہے، سیاسی کارکن ہے یا پھر مسلح جہد کار۔ اسکے بعد تفتیش کار کوٹھڑی میں داخل ہوکر گرفتار کارکن پر ہر طرح کے کاروائیوں کا الزام لگاتے ہیں ۔ اگر انکے پاس کوئی ثبوت نا ہو تو پھر وہ کئی مختلف من گھڑت کاروائیوں کا الزام لگاتے ہیں۔

ان من گھڑت الزامات کا مقصد، کارکن کے ذہن میں خوف اور احساسِ گناہ پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اگر تفتیش کاروں کے پاس کوئی ثبوت یا پھر مضبوط شک موجود ہو، جس کے ذریعے کارکن کو کسی کاروائی سے جوڑا جاسکے، تو پھر دباو اور تشدد کا آغاز فوری طور پر ہی ہوجاتا ہے۔ یہ دباو شدید نفسیاتی اور جسمانی تشدد کی صورت میں برتا جاتا ہے۔ اس دوران اسے بد ترین تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے کارکن پر دباو ڈالا جاتا ہے کہ وہ اعتراف کرے، اسے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ تفتیش کاروں کو سب کچھ پتہ ہے۔ اگر وہ تشدد کے بعد بھی کوئی اعترافی بیان حاصل نا کرپائیں، تو وہ تھوڑی دیر کیلئے گرفتار کارکن کو چھوڑ دیتے ہیں اور یہ دھمکی دیکر چلے جاتے ہیں کہ وہ واپس آکر مزید بد تر تشدد کرکے اس سے سب کچھ اگلوائیں گے اور دھمکی دیتے ہیں کہ انہوں نے اس کارکن سے زیادہ مضبوط لوگوں تک کو سب کچھ اگلوایا ہے۔

زیادہ تر اوقات، کچھ دیر بعد مزید تفتیش کار کمرے میں داخل ہوتے ہیں، بسا اوقات، انکے ہاتھ میں اس گرفتار کارکن کے بابت ایک فائل ہوتا ہے۔ وہ بہت دوستانہ انداز میں پیش آتے ہیں اور ہمدردی جتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ تشدد کرنے والے تفتیش کاروں کی بالکل حمایت نہیں کرتے، وہ کہتے ہیں کہ پہلے والے تفتیش کار بالکل پاگل اور نفسیاتی ہیں، وہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کوشش کررہے ہیں کہ ان ” پاگل تفتیش کاروں“ کو آنے نا دیں کیونکہ وہ مار مار کر قتل بھی کرسکتے ہیں۔ وہ ہر ممکن الفاظ اور طریقہ کار اختیار کرتے ہیں کہ گرفتار کارکن کو یہ یقین دلا دیں، کہ وہ اسکے ہمدرد ہیں تاکہ وہ ان پر اعتماد کرسکے اور وہ ہمدردی سے کوشش کرتے ہیں کہ کارکن کو اعتراف کروائیں۔

وہ بار بار یہ ضمانت دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر گرفتار کارکن اعتراف کرلے تو پھر وہ ان ” پاگل “ تفتیش کاروں کو اسکے کمرے میں داخل ہونے نہیں دینگے، ساتھ ہی وہ بین السطور یہ دھمکی دیتے ہیں کہ اگر انہیں کوئی اعتراف نہیں ملا تو پھر وہ گرفتار کارکن کی مدد نہیں کرسکتے اور پر تشدد تفتیش کار واپس آجائیں گے اور وہ اسے جان سے بھی مار سکتے ہیں۔ اگر کارکن اعتراف سے انکار کردے تو پھر وہ ظاھر کرتے ہیں کہ انہیں بہت مایوسی ہوئی کہ انکے ساتھ کوئی تعاون نہیں ہوا۔ وہ معمولی تھپڑ وغیرہ مار کر بار بار گرفتار کارکن کو یہ بتاتے ہیں کہ اسے شکر گذار ہونا چاہیئے کہ انہوں نے اسے موت کے منہ سے بچایا ہے اور تعاون نا کرکے گرفتار کارکن انتہائی نا شکری کا مظاھرہ کررہا ہے۔

اسکے بعد تفتیش کار ایک فائل کھولتے ہیں اور اسے گرفتار کارکن کے سامنے سر سری پڑھنا شروع کرتے ہیں۔ اس میں قیدی کے ماضی، سرگرمیاں حتیٰ کے اسکے رومانوی زندگی کے حوالے ذاتی معلومات تک کو پڑھنا شروع کرتے ہیں۔ یہ معلومات زیادہ تر اسکے دوستوں، اسکول، نوکری کی جگہ، خاندان، بیوی یا گرل فرینڈ سے حاصل کی جاتی ہے یا پھر عوامی مقامات پر اسکے بے احتیاطی سے کی جانی والی باتوں سے لی جاتی ہے جو ہر جگہ بیٹھے مخبر اکٹھا کرتے ہیں۔ یا اسکے بارے میں پرانے قیدیوں سے لی جانے والی معلومات بھی ہوسکتا ہے۔ یہ معلومات اس طرح سے ترتیب دیکر قیدی کے سامنے پڑھے جاتے ہیں، کہ وہ گرفتار کارکن کو خوف میں مبتلا کردیں، اسے لگے کہ اسکے بارے میں وہ سب کچھ جانتے ہیں تاکہ اسکا اعتماد اپنے دوستوں اور خاص طور پر اپنے تنظیم سے ٹوٹ جائے۔ اسکے باوجود اگر پھر بھی گرفتار کارکن اعتراف نہیں کرے تو پھر وہ اسے اکیلا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، لیکن اس سے پہلے وہ اپنا نام اس قیدی کو بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب وہی پاگل اور انتہائی تشدد کرنے والے تفتیش کار آئیں گے لیکن اگر اسے کچھ کہنا ہو تو قیدی انکا نام لیکر انہیں بلا سکتا ہے اور ہم تمہاری جان ان پاگل تفتیش کاروں سے چھڑا سکتے ہیں۔

کچھ دیر بعد دوباروہ کچھ تفتیش کار آتے ہیں اور وہ گرفتار کارکن پر حد درجہ تشدد کرتے ہیں۔ وہ فوراً گرفتار کارکن پر حملہ کرتے ہیں اور شدید تشدد کرتے ہوئے اسے کہتے ہیں کہ ”گو کہ پرانے شائستہ تفتیش کار گرفتار کارکن کو اعتراف نہیں کروا سکے لیکن وہ ضرور اسکا منہ کھلوائیں گے“ ۔ وہ کہتے ہیں کہ جس قیدی نے بھی یہاں اعتراف نہیں کیا ہے، اسے مار دیا گیا ہے۔

اِس سے آگے تشدد سہ درجاتی مقاصد کیلئے استعمال ہوگی ۔

الف: جسمانی تشدد:۔
جسمانی تشدد لاتوں، گھونسوں، ڈنڈوں سے مارنے، جسمانی اعضاءتوڑنے، جلانے وغیرہ کی صورت میں برتی جاتی ہے۔
ب : نفسیاتی تشدد :۔
نفسیاتی تشدد خاندان، دوستوں اور اسکے ذات کو مارنے کی دھمکیوں، اسے قتل یا اسکے عضوِ تناسل کو کاٹنے وغیرہ کی دھمکیوں کی صورت میں برتی جاتی ہے۔
ج: بے عزتی :۔
قیدی کے عزتِ نفس کو مجروح کرنے کی خاطر اسے بے لباس کرکے لٹکایا جاتا ہے، اِس دوران اس پر غلیظ جملے کسے جاتے ہیں اور گندی گالیاں بکی جاتی ہیں۔ اس حالت میں اسکی تفتیش ہوتی ہے، جو گھنٹوں جاری رہتی ہے۔ ممکنہ طور پر اس دوران قیدی کے کسی ساتھی کا جھوٹا اعتراف نامہ پیش کرتے ہیں تاکہ وہ ٹوٹ جائے۔

یہ سہ جہتی تشدد کئی دنوں تک جاری رہتا ہے، اس دوران قیدی کو سونے کیلئے کم سے کم چھوڑا جاتا ہے، اگر ضرورت محسوس ہو تو بالکل سونے نہیں دیا جاتا کیونکہ نیند کی کمی کی وجہ سے قیدی کے حواس قابو میں نہیں رہتے۔

تفتیش کے بہت سے مختلف مدارج ہوتے ہیں، اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ دشمن کے پاس ثبوت و شواہد اور معلومات کتنی ہے۔ یہ بات ظاھر ہے کہ اگر کوئی کارکن کسی کاروائی کے دوران، یا اسلحہ و بم کے ساتھ پکڑا گیا تو اسے پہلے سے ہی گنہگار تصور کیا جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں کسی اعترافی بیان کی ضرورت نہیں ہوتی، ایسی صورتحال میں کارکن پر زیادہ تر تشدد معلومات حاصل کرنے سے زیادہ اسے سزا دینے کیلئے ہوتا ہے۔

جب تفتیش کاروں کو ہر طریقہ استعمال کرنے کے باوجود اعترافی بیان حاصل نہیں ہوتا، تو پھر وہ کارکن کو بلیک میلنگ کے حربے سے توڑنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ بلیک میلنگ دھمکیوں کی صورت میں ہوسکتا ہے، اسے ڈرایا جاسکتا ہے کہ اسکے بارے میں ایسی کہانیاں نکالی جائینگی جس سے وہ بدنام ہوجائیگا، جیسے کہ اسے کہا جاتا ہے کہ تمہارے تنظیم کو نا معلوم ذرائع سے یہ باور کرایا جائے گا کہ تم ہمارے لیئے کام کرتے ہو اور کئی سالوں سے ہمارے بندے تھے۔ اسکے بعد پیسوں کی لالچ دی جا سکتی ہے۔ گرفتار کارکن کو پیسے دینے کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ اسے کہا جاتا ہے کہ اگر وہ تعاون کرے تو اسے پیسے، پاسپورٹ اور محفوظ راستہ دیا جائے گا پھر وہ کہیں بھی اپنے کسی پسند کے ملک جاکر اپنی باقی زندگی گذار سکتا ہے۔

”جاری ہے “

ڈس کلیمر: یہ کتابچہ مصنف کی جانب سے خالصتاً تعلیمی اور تحقیقاتی بنیادوں پر شائع کیا جا رہا ہے۔ دی بلوچستان پوسٹ یا اسکے کسی ایڈیٹر کا اس کتابچے اوراسکے مواد سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔