بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے قائد اعظم یونیورسٹی سے برطرف کیے گئے بلوچ طلباء کی بحالی کے لئے تادم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھے طلباء کی گرتی صحت پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بھوک ہڑتال پر بیٹھے طلباء کی سادہ و بنیادی مطالبات تسلیم کرنے کے بجائے انتظامیہ ان کی جانوں سے کھیل رہی ہے۔اس مسئلے کی طوالت سے پہلے سے ہی کئی طلباء کے قیمتی سال ضائع ہوئے ہیں، لیکن انتظامیہ اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے شعوری طور پر مزید طول دے رہی ہے۔ پہلے پولیس کے ذریعے طلباء پر بہیمانہ تشدد کیا گیا، اب یونیورسٹی کی بے حس انتظامیہ ان کی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ بھوک ہڑتال پر بیٹھے صدام بلوچ نامی نوجوان کی گرتی صحت تشویشناک ہے، اگر طلباء کے مطالبات کو بروقت تسلیم نہیں کیا گیا تو بھوک ہڑتال پر بیٹھے نوجوانوں کے جانی نقصان کی زمہ دار انتظامیہ ہوگی۔ ترجمان نے کہا کہ قابض ریاستیں اپنی کالونیوں کے رہائشیوں سے تیسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کرتے ہیں، بلوچ نوجوان بھی قابض کے اسی رویے کا شکار ہیں۔ بلوچ طلباء کوئٹہ و گوادر کے ہوں یا اسلام آباد میں پڑھنے والے، ریاست کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ ان طلباء کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھے۔ بی ایس او آزاد کے ترجمان نے مزید کہا کہ کراچی سے گزشتہ مہینے کی 28تاریخ کو انسانی حقوق کے بلوچ کارکن اور انٹر نیشنل ریلیشن کے طالبعلم عطاء نواز سمیت 8طلباء کو رینجرز اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اغواء کیا، ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود تاحال ان کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اغواء ہونے والے نوجوانوں میں سے 8 سال ، 13سال اور17 سالہ نوجوان بھی شامل ہیں، ان کمسن نوجوانوں کی گمشدگی بدترین ریاستی جبر ہے، لیکن افسوسناک طور پر انسانی حقوق کے پاکستانی اور بین الاقوامی ادارے اس حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ بی ایس او آزاد کے ترجمان نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ بلوچ طلباء کی زندگیوں کی حفاظت اور گمشدہ انسانی حقوق کے کارکن اور دوسرے طلباء کی بحفاظت بازیابی کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ اگر اقوام متحدہ کے رکن ملک پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کی زیر حراست عطاء نواز اور دوسرے طلباء کو کچھ ہو گیا تو اقوام متحدہ بھی برابر کی زمہ دار ہوگی۔