ریفرنڈم پر سمجھوتہ نا کرنا کردوں کی دیرینہ خواہش کی عکاسی کرتا ہے: حیربیار مری

544

بلو چ رہنما حیربیار مری نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ عالمی دباؤکے باوجود کردستان ریجنل گورنمنٹ کے صدر مسعود بارزانی اور کردستان پارلیمان کے طرف سے آزادی کے ریفرینڈم پر سمجھوتہ نہ کرنا کردقوم کی آزادی کی دیرینہ خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم کی طرح کرد قوم کو بھی عالمی طاقتوں نے سامراجی پالیسیوں کے تحت تقسیم کیا اور جنگ عظیم اوّل کے بعد آزاد کردستان کے وعدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کردقوم کو انکے دشمنوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ کرد پانچ حصوں میں تقسیم ہیں ان کے پاس کوئی ریاست موجود نہیں ۔ عراق جیسے ملک کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا ہے اسی لیے ایک آزاد ملک ہی کرد قومی مفادات کی حفاظت کرسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کردستان کے قدرتی وسائل جیسے کہ پانی، تیل اور گیس کو قابض اقوام نے ہمیشہ اپنے لیے استعمال کیا اور ان وسائل کی وجہ سے بہت سے ریاستیں آزاد کردستان کی مخالفت کرتے آرہے ہیں۔ مشرق وسطی کے سب سے زیادہ جھیل اور دریا کردستان میں موجود ہیں جس سے مشرق وسطی کی عرب ریاستیں اور ترکی اپنی ملکی ضروریات پورا کرتاہے،کردستان کی آزادی سے ان ریاستوں کے تیل و گیس کے ساتھ ساتھ کردوں کے آبی وسائل پر بالادستی ختم ہوجائے گی۔ حیربیار مری نے کہا کہ عالمی طاقتوں کے دباو کے باوجود کرد لیڈروں کو ریفرینڈم میں کامیابی کے بعد اعلان آزادی کرنی چاہئے شاید اس عمل کے دوران کردستان کی آزادی کو عالمی طاقتوں کی مخالفت کا سامنہ کرنا پڑے لیکن عالمی طاقتوں کو کردستان کی ضرورت ہے اسی لیے آج مخالفت کے باوجود کل یہی ممالک اپنی مفادات کی تحفظ کے لیے آزاد کردستان کو تسلیم کریں گے۔ حیربیار مری نے کہا کہ ایک صدی سے برطانیہ اور فرانس کے درمیان طے پانے والی خفیہ ساہیکوس پیکوٹ معاہدے کو خطے کے لوگوں پر مسلط کیا جارہا ہے لیکن اب ان طاقتوں کو تسلیم کرنا ہوگا کہ قوموں کو تقسیم کرنے والی یہ مصنوعی لکیروں کا وقت گزچکا ہے ۔ ساہیکوس پیکوٹ معاہدہ ، ڈیورنڈ لائن یا پھر گو لڈ سمڈ لائن ہو ان تمام لکیروں کو تقسیم در تقسیم کے پالیسی کے تحت بنایا گیا جن کی حفاظت شام، عراق، ایران اور پاکستان جیسے ممالک مظلوم قوموں کا خون بہا کر کررہے ہیں۔ حیربیار مری نے کہا کہ کردستان کی آزادی کے خلاف ایران، ترکی ،شام اور عراق کا اکٹھا ہونا اور ایران اور ترکی کی کردستان ریجنل گورنمینٹ سے معاشی اور سفارتی تعلقات کے باوجود آزادی کی بھر پور مخالفت کرنا ان بلوچ سیاسی پارٹیوں کے لیے ایک تاریخی سبق ہونا چاہیے جو اب بھی یہ سوچتے ہیں کہ بلوچستان کے ایک حصے پر قابض ملک بلوچستان کے دوسرے حصے کی آزادی کی حمایت اور بلوچ جہدکاروں کی مدد کرے گا۔